پاکستان کی ڈیڑھ فیصد سے ذیادہ آبادی اغلام بازی میں ملوث ہے۔
کھسرا اور معاشرہ
ایک ننگ دھڑنگ بچہ تیزی سے دوڑتا ہوا باآواز بلند چیختا اور چلاتا جارہا ہے کہ لوگو! ہوشیار ہوجاؤ، حاجی صاحب اپنے کئی دوستوں کے ہمراہ گاؤں کی طرف آرہے ہیں، بچے کی آواز سن کر گاؤں کے تمام بچے اور بچیاں اپنے اپنے گھروں سے نکل کر گاؤں کے باہر چوہدری کے ڈیرے کی طرف لپکتے ہیں کہ دیکھیں اس دفعہ حاجی صاحب کے ساتھ کتنے لوگ ہیں۔ ان کے کپڑوں کا انداز کیسا ہے؟ چوہدری صاحب کے نوکر حاجی صاحب کی آمد کا سن کر فورا اندر بنے کچے کمروں کا رخ کرتے ہیں، کمروں میں موجود تمام موجود تمام چارپائیوں کو نکال کر صحن میں لگے برگد کے سائے تلے بچھانا شروع کردیتے ہیں۔ گاؤں میں ایک نئی ہلچل پیداہوچکی ہے اور ہرشخص بے تاب ہوکر گاؤں میں داخل ہونے والے کچے راستے پر نظریں جما کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ زرق برق اور چمکیلے لباسوں میں ملبوس کئی افراد کا قافلہ گاؤں کی طر ف تیزی سے آرہا ہے۔ گاؤں والوں کو اپنے انتظار میں دیکھ کر حاجی صاحب کا قافلہ تالیاں پیٹنا شروع کردیتا ہے اور آخری تانگے میں سوار میراثی طبلے پر زورآزمائی شروع کردیتا ہے۔ طبلے اور تالیوں کی گونج میں یہ قافلہ چوہدری صاحب کے ڈیرے پر آکررکتا ہے۔ تانگے آکر ٹھہرتے ہیں کہ گاؤں کے ننگے دھڑنگے بچے اچھل کر تانگوں پر سوار ہوجاتے ہیں۔ جنہیں حاجی صاحب اور ان کے دوست پیارکرتے ہیں تو یہ بچے فخریہ نظروں سے دوسرے بچوں کو دیکھتے ہیں کہ ہم نے کیا معرکہ سر کرلیا، تم اس لذت سے محروم ہوگئے۔ جبکہ دوسری طرف گاؤں کی عورتیں حاجی صاحب کی آمد کا سن کرنوازئیدہ بچوں کو گود میں اُٹھا کر مسکرا اٹھتی ہیں کہ میرے منے کی ودھائی لینے کے لئے حاجی صاحب آ پہنچے ہیں۔ جی ہاں یہ حاجی کھسروں کے گرو ہیں جن کے کئی چیلے اور شاگرد بھی اس گاؤں کے باسیوں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے آتے ہیں۔ بڑی عمر کی عورتیں اپنی نئی نویلی بہوؤں کو حکم جاری کرتی ہیں کہ جلدی سے اچھے کپڑے پہن لو کہیں حاجی صاحب کے سامنے شرمندگی نہ اُٹھانی پڑے۔ ساتھ ہی حاجی صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے اناج، رقم اور کپڑے وغیرہ ایک مقام پر اکھٹے کرلئے جاتے ہیں کیونکہ حاجی صاحب کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ذیادہ دیر ٹھہر سکیں۔ لہذا ان کا قیمتی وقت بچانے کے لئے تمام کام جلد سے جلد نمٹا لئے جائیں۔ اسی اثناء میں حاجی صاحب کا گاؤں والے استقبال کرکے انہیں ایک بڑے ہجوم کی شکل میں برگد تلے لے آتے ہیں۔ جہاں آگے کی چارپائیوں پر پہلے ہی گاؤں کے جوان قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔ گاؤں کے بزرگ انہیں اٹھا کر ان کی نشستوں پر براجمان ہوجاتے ہیں اور وہاں ایک نئی محفل شروع ہوجاتی ہے۔ حاجی صاحب یوگا کے انداز میں لات پر لات جما کر اکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان کے ساتھ آنے والے کھسرے پاؤں میں گھنگھرو باندھ کر دائرے میں اتر آتے ہیں۔ حاجی صاحب کے ساتھ آنے والے میراثی اپنے آلات کو سنبھال کر ہارمونیم اور طبلے کی آواز کے ذریعے ایسا سماں باندھ دیتے ہیں کہ کھسرے بے تاب ہو کر ناچتے ہیں۔ حاجی صاحب حقے کی نال کو پکڑ کر اپنے چیلوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ہلکی ہلکی تالیاں پیٹ رہے ہوتے ہیں۔حاجی صاحب کو تالیاں بجاتے دیکھ کر ان کے شاگرد چیلے بھی تالیاں پیٹنا شروع کردیتے ہیں۔ کھسروں کا رقص طبلے اور باجے کی گونج اور گاؤں والوں کا انہماک دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت خوش ہیں۔ وہ خوش بھی کیوں نہ ہوں ان کے گھر وہ مہمان آیا ہے۔ جو سال میں صرف ایک بار ان کے دروازے پر دستک دے کر خوشی تقسیم کرتا ہے۔ حاجی صاحب بیٹھے بیٹھے اچانک ایک صاحب کو اشارہ کے ذریعے اپنے قریب بلاتے ہیں۔ وہ فورا حاجی صاحب کے قریب آن بیٹھتا ہے اور حاجی صاحب کو بتاتا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران فلاں فلاں گھر میں بچے پیدا ہوا ہے، ان میں سے اتنے بچے اور اتنی بچیاں ہیں، فلاں گھر میں شادی ہوئی اور فلاں گھر میں شادی ہونے والی ہے۔ فلاں کے بچے کا عقیقہ ہوا ہے اور فلاں کے بچے کی ختنہ کی رسم ادا کی گئی ہے۔ حاجی صاحب اس سے معلومات حاصل کرکے گاؤں کے دورے کا پروگرام بناتے ہیں۔ اور پھر وہ محفل اچانک ختم کردی جاتی ہے۔ حاجی صاحب اپنے دوستوں کو اشارہ کرتے ہیں کہ اب آگے بڑھو وہ تمام کام چھوڑ کر حاجی صاحب کے پیچھے چل دیتے ہیں۔ حاجی صاحب اب ایک ایسے گھر کے سامنے کھڑے ہیں جہاں بچی پیدا ہوئی وہ بچی کی ماں کو بلواتے ہیں اور بچی کی پیدائش پر مبارکباد دے کربچی کی اچھی صحت، نیک اور صالح ہونے کی دعا دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ گاؤں کے بچوں کا جلوس حاجی صاحب کے ساتھ ساتھ مختلف شرارتیں کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہوتا ہے۔ کھسرے بچوں سے چھیڑخانی کرکے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ کھسروں کی چھیڑخانی سے کئی بچے شرمارہے ہیں۔ اب حاجی صاحب کی منزل مقصود وہ گھر ہوتا ہے جہاں لڑکا پیدا ہوا ہے۔ وہ اس گھر کے دروازے پر پہنچ کر اندر داخل ہوتے ہیں تو ایک نیا منظر سامنے آتا ہے کہ لڑکے کی دادی بچے کو گود میں اُٹھائے کھڑی ہے اوربچے کی ماں اپنی ساس کے پیچھے گھونگھٹ اٹھائے شرمائی سمٹی چھپنے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس کا دل خوشی سے جھوم رہا ہے کہ اس کے بیٹے کی وجہ سے حاجی صاحب اس گھر میں بھی آن کھڑے ہوئے ہیں۔ دادی لپک کر بچے کو حاجی صاحب کی گود میں ڈال دیتی ہے۔ حاجی صاحب بچے کے گالوں کو چوم کر پیار سے مختلف آوازیں نکالتے ہیں جنہیں سن کر وہاں موجود تمام چھوٹے بڑے مردوخواتین ہنس پڑتے ہیں۔ حاجی صاحب بچے کو گود میں اٹھائے تالی پیٹے ہیں تو ان کے ساتھ آنے والے کھسرے گانا گاتے ہوئے ناچنا شروع کردیتے ہیں اسی اثناء میں گھر والے بچے کی ودھائی، فصل کی بٹائی میں سے حاجی صاحب کا حصہ اور اپنی خوشی سے کپڑے ان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں تو حاجی صاحب انہیں پکڑ کر اپنے ساتھ آئے ایک چیلے کو تھما دیتے ہیں۔ کچھ دیر گانے بجانے اور دودھ لسی پینے کے بعد یہ قافلہ اگلے گھر کا رخ کرتا ہے۔ جہاں ان کی آمد سء پہلے ہی کھانے پینے کا مکمل انتظام ہوچکا ہے۔ کام سے فارغ ہونے کے بعد کھانے پینے کا دور چلے گا اور اسی طرح حاجی صاحب پورے گاؤں کا دورہ مکمل کرکے رات ٹھہرنے کے لئے چوہدری صاحب کے ڈیرے پر آ دھمکتے ہیں جہاں وہ ریشمی بستروں میں لپٹ کر سوئیں گے اور صبح اپنی اگلی منزل کی جانب چل دیں گے۔ یہاں پر ایک بات لکھنا ضروری ہے کہ دن بھرکی تمام مصروفیات کے باوجود حاجی صاحب کی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی۔ اور تمام نمازیں باجماعت گاؤں کی اکلوتی مسجد میں ادا کیں۔ جہاں نمازیوں نے انہیں ساتواں حج کرنے پر مبارکباد دینے کے علاوہ ان سے اللہ کے گھر مکے مدینے کی پیاری پیاری کہانیاں سنیں۔ اس قسم کے سینکڑوں مناظر کا گواہ مرید کے، کے گردونواح میں رہنے والا ہر وہ فرد ہے جس نے اس علاقے میں پرورش پائی۔ مرید کے کا کھسرا حاجی صاحب، جس کی عزت اس علاقے میں اس طرح کی جاتی تھی جس طرح کہ وہ بہت بڑا پیر یا روحانی راہنما ہے۔ یہ ہے کھسرے کی زندگی کا وہ منظر جسے دیکھ کر لوگ کہتے ہیں کہ کھسرے تو اللہ کے نیک بندے ہیں۔
منظر بدلتا ہے۔ ایک نوجوان، وی سی آر، سی ڈی پر فحش فلم دیکھ کر باہر نکلتا ہے اس کے سفلی جذبات بھڑکے ہوئے ہیں اور وہ اپنی شہوت پر قابو پانے کے لئے کسی عورت کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ سڑک پر کوئی عورت دستیاب نہیں ہے۔ کسی کے اڈے پر جانے کی ہمت نہیں کہ جیب میں پیسے کم ہیں۔ اگر عورت مل بھی جائے تو اسے لے جایا کہاں جائے کہ جگہ نہیں۔ بہرحال وہ سڑکوں پر مارا مارا پھررہا ہے کہ اندھیرے سے ایک آواز ابھرتی ہے۔ سوہنیو کدھر چلے او، ایدھر آؤ، ساڈی وی گل سنو،
نوجوان آواز سن کر بے قرار ہوکر نظریں اردگرد گھماتا ہے اور پھر اندھیرے کی طرف محتاط انداز میں چل دیتا ہے، وہاں پہنچتا ہے تو چوڑیوں کی کھنک اور تیز پرفیوم کی خوشبو اس کے حواس کو مزید پاگل کردیتی ہے، لڑکا خوش ہے کہ چلو کام بن گیا۔ لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی مخاطب عورت نہیں، مرد نہیں، مخنث ہے تو وہ بدک جاتا ہے، ابھی وہ بدک کر بھاگنا چاہتا ہے کہ کھسرا اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی باتوں میں الجھا لیتا ہے اور اس الجھن میں وہ کچھ شروع ہوجاتا ہے جس کی وہ توقع نہیں کرتا۔ لیکن بہرحال اس کے سفلی جذبات سرد پڑچکے ہیں۔ برائی کا احساس چند لمحے زندہ رہتا ہے پھر وہ سب کچھ بھول جاتا ہے اور یہی بھول پھر اسے کھسرے کے قریب لے جاتی ہے۔ ان کھسروں کو دیکھ کرلگتا ہے کہ کھسرا پیدا ہی اس لئے ہوا ہے کہ وہ بدکاری کو فروغ دے سکے۔ اس قسم کے منظر لاہور کے باسیوں کو ہر معروف و غیرمعروف سڑک پر روزانہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ماضی میں صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی کھسروں کی زندگی کے حوالے اسے اتنی بڑی تبدیلی کیسے آئی، اس موضوع پر بحث کرنے کے لئے شاید ہمارے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اسلامی معاشرے میں اس قسم کے واہیات موضوعات پر بحث کرنا یا لکھنا کسی گناہ سے کم نہیں۔ ہمارے خیال میں یہ بات غلط ہے۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جس میں انسان کے لئے ہر شعبہ زندگی کے لئے راہنمائی اور ہدایت موجود ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں قوم لوط کا ذکر اپنے اندر بہت سے معانی چھپائے ہوئے ہے۔ اسلامی معاشرے میں عورت کے ساتھ وقت گزارنا تو دور کی بات اس کی طرف غلط نگاہوں سے دیکھنا بھی گناہ سے کم نہیں۔ چہ جائیکہ انسان ہم جنس پرستی کی طرف راغب ہوکرکھسرے کو غلط فہمی کی بنا پر ایک اچھا اور مقدس انسان گردانا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کے عیوب سے چشم پوشی اختیار کی جاتی ہے اور ایسا کرنے والے ہمارے نزدیک گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اگر ہم نے کھسروں کی آڑ میں تیزی سے پھیلنے والی فحاشی اور بے حیائی کا راستہ آج نہ روکا تو آنے والے دنوں میں جو تباہی نازل ہوگی اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایسے افعال کی وجہ سے کوئی جیسا شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا، جولائی ۵۳۹۱ ماہنامہ تاج کا شمارہ اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ زلزلہ سے تباہ ہونے والی کوئٹہ کی ۵۹ فیصد سے زائد آبادی اس فعل قبیح میں ملوث پائی جاتی تھی مضمون کے مصنف کے مطابق اس زمانے میں لمبی لمبی داڑھیاں رکھنے والے افراد بھی لونڈوں کو فخریہ لئے پھرتے تھے۔ جبکہ آج یہ عالم سہمے کہ پاکستان کے ہر شہر میں قوم لوط کے افعال کی نقل کرنے والے سینکڑوں، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد موجود ہیں۔ زیرنظرکتاب کی تیاری کے دوران کھسروں کے حوالے سے اعداد وشمار اکھٹے کرتے ہوئے یہ تلخ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اس قوم کے کم ازکم بیس لاکھ سے زائد افراد بالواسطہ یہ بالاواسطہ اس قبیح فعل میں شریک ہیں۔ بیس لاکھ کی افرادی قوت پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا ڈیڑھ فیصد بنتی ہے۔ پاکستان کی ڈیڑھ فیصد آبادی ہم جنس پرستی یا دوسرے الفاظ میں اغلام بازی کی عادت بد میں ملوث ہو اور اس مسئلے پر بحث یا اس کے روکنے کی ترکیب نہ کی جائے یہ اس سے بڑا ظلم ہے جو ہم جنس پرست اس معاشرے کے ساتھ کررہے ہیں۔ موجودہ کھسرے کا ماضی اور حال کے کھسرے کا حال اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ ٓپ خود فیصلہ کریں کہ آج کا کھسرا قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ کھسرے جس طرح ہمارے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے معصوم ذہنوں کو پراگندہ کرکے اجتماعی طور پر معاشرے کو غلط راہ پر ڈال کر ملک وقوم کامستقبل تاریک کرنا چاہتے ہیں ہمیں
اپنے آپ کو اور نئی نسل کو اس سے بچانا ہوگا۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر آپ اپنے فرض کو پہنچانتے ہوئے آگے بڑھیں اورغلط کام کرنے والوں کو روکیں۔ اگر برائی اجتماعیت کے تصور کے تحت اپنا پھیلاؤ جاری رکھ سکتی ہے تو اسی تصور کے تحت آپ بھی اس برائی کا راستہ روک سکتے ہیں۔
کھسرے یا ہیجڑے یہ مضمون پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں
چوہدراہٹ سے ڈھولک تک، یہ مضمون پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں
کھسرے کی بددُعا، یہ مضمون پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں
کھسرے اور خیر خیرات، یہ مضمون پڑھنے کےلئے یہاں پر کلک کریں
وقت اجل اور کھسرے، یہ مضمون پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں
کھسروں کی پوشیدہ زندگی، یہ مضمون پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں
طوائف اور کھسرا، یہ مضمون پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں
بیروزگار نوجوان ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے ہیجڑوں کا روپ دھارنے لگے
کھسروں کے روپ میں بہروپیوں نے بازاروں میں خواتین کو تنگ کرنا شروع کردیا
ہری پور خواجہ سراء کو اغوا کرنےکی کوشش،ناکامی پر گولی مار دی۔۔۔ مزید پڑھیں
ہری پور خواجہ سراء جنسی تشدد، دوملزمان گرفتار۔۔۔۔ مزید پڑھیں
دیتے ہیں یہ بازی گر دھوکہ کیسے کیسے، چند حقائق بمعہ تصاویر۔۔۔۔۔ مزید پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں
Great Information and Post
ReplyDelete