چودھراہٹ سے ڈھولک تک ایک چوہدری کی سچی کہانی - Haripur Today

Breaking

Sunday 24 January 2021

چودھراہٹ سے ڈھولک تک ایک چوہدری کی سچی کہانی







کھسروں یا ہیجٹروں کے بارے میں مزید پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں

وقت اجل اور کھسرے۔۔۔۔۔۔ مزید پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں

طوائف اور کھسرا۔۔۔۔ مزید پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں

 کھسرے اور خیر خیرات۔۔۔ مزید پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں

کھسروں کی پوشیدہ زندگی۔۔۔۔ مزید پڑھنے کے لئے یہاں پرکلک کریں

کھسرے کی بددعا۔۔۔۔۔ مزید پڑھنے کے لئے یہاں پرکلک کریں

کھسرے یا ہیجڑے ایک مسترد مخلوق۔۔۔۔ مزید پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں

میں شہزاد سے شہزادی کیسے بنی۔۔۔۔ مزید پڑھنے کے لئے یہاں پر کلک کریں

 

 

 

چودھراہٹ سے ڈھولک تک   ایک چوہدری کی سچی کہانی

یہ سچی کہانی ایک ایسے چوہدری کی ہے جس نے کھسرے کے پیار میں والدین، بیوی، بچوں سے محرومی کے علاوہ دولت اور جائیداد لٹانے کے بعد ڈھولک بجائی۔ خانقاہ ڈوگراں کے 

رہائشی چوہدری رفیق کے والدین اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر لاہور آئے۔ متوسط خاندان میں بیٹے کی شادی کرکے پروین کو بہو بنانے والے والدین نے شادی کے بعد چوہدری رفیق کو ہر قسم کی مالی خودمختاری دے دی۔ خوبصورت بیوی کو پاکر ہر وقت مسرور رہنے والا چوہدری رفیق مالی خود مختاری کی خبر پاکر اپنی مرضی کے کاروبار میں جت گیا۔اس کاروبار سے اس نے سینکڑوں ہزاروں روپے کمائے، ان پیسوں سے اس نے اپنی بیوی کو دنیا جہان کی نعمتوں سے نواز دیا۔ بیوی خاوند کا پیار اور محبت پاکر ہر وقت خوش رہتی۔ جب کبھی اس کا لاہور کا چکر لگتا تو اس کی سہلیاں اسے خوش دیکھ کر اس کی قسمت پر رشک کرتیں۔ اس دوران اللہ نے انہیں چار بچوں کی نعمت سے نوازا۔ محبت دینے والا شوہر، پیاری پیاری اولاد اور پیسے کی ریل پیل، اس خاندان کو اس وقت نظر لگ گئی جب چوہدری رفیق اپنے دوست کی شادی میں شرکت کے لئے گجرات گیا۔ شادی کے دوران اس کی ملاقات شازی نامی کھسرے سے ہوئی جو چوہدری رفیق کے دوست کا پرانا محلے دار تھا۔ چوہدری کا یہ دوست خانقاہ ڈوگراں کا ہی رہنے والا تھا۔ جو گزشتہ سات سالوں سے گجرات منتقل ہوگیا تھا۔ چوہدری رفیق نے شازی کو خانقاہ ڈوگراں آنے کی دعوت دی جسے شازی نے بخوشی قبول کرلیا۔ شازی نے دعوت صرف اس لئے قبول کی کہ اسے اندازہ ہوچکا تھا کہ چوہدری خاصا مالدار آدمی ہے۔ اگر اس پر جال پھینکا جائے تو مچھلی ہاتھ لگ سکتی ہے۔ شادی کے تین ماہ بعد شازی خانقاہ ڈوگراں پہنچ گیا۔ چوہدری رفیق اپنے مہمان کو دیکھ کر بہت مسرور ہوا۔ چوہدری نے شازی کو اپنے خالی پڑے گھر میں ٹھہرایا۔ جب اس کے والدین نے پوچھا کہ گھر میں کھسرا کیوں رہائش پذیر ہے تو اس نے جواب دیا کہ یہ میرے دوست کا دوست ہے کسی کام کے لئے یہاں آیا تھا۔ چند دنوں بعد چلا جائے گا۔ جب کہ دوسری طرف شازی۔ چوہدری کی جائیداد اور کاروبار دیکھ کر وہاں مستقل رہنے کا سوچنے لگا۔ چوہدری کو بیوقوف بنانے کے لئے اس نے لچھے دار باتیں کرنے کے علاوہ عورت کا روپ دھارنا شروع کردیا۔ شازی کو عورت کے روپ میں دیکھ کر چوہدری مبہوت ہوجاتا تھا۔ انہیں دنوں وہ اپنی بیوی اور بچوں سے بھی دور ہوتا چلا گیا۔ بیوی نے خاوند کی دوری محسوس کرتے ہوئے اسے کئی بار احساس دلایا کہ تم ایسا کرکے نہ صرف مجھ پر بلکہ بچوں پربھی ظلم کے مرتکب ہورہے ہو۔ چوہدری بیوی کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتا تھا۔ شازی نے چوہدری کے بڑھتے ہوئے التفات کو محسوس کرتے ہوئے اس پر حملہ آور ہونے کے لئے نفسیاتی طریقوں کی مدد حاصل کرنا شروع کردی۔ یہاں تک کہ اس نے ایک روز چوہدری کو بدکاری کی دعوت دے ڈالی۔ شازی کی آمد کے چار ماہ بعد چوہدری رفیق نے پہلی بار رات گھر سے باہر گزاری۔ بیوی نے لوگوں سے پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ وہ گزشتہ رات شازی کے ساتھ اپنے دوسرے گھر میں موجود تھا۔ بیوی نے صورتحال دیکھتے ہوئے خاوند کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ کھسرے کسی کے دوست نہیں۔ تم گھر سے باہر رات مت گزارا کرو۔ بیوی کی یہ بات سنتے ہی وہ اس غریب پرچڑھ دوڑا۔ پروین کی زندگی میں یہ پہلا دن تھا کہ جب اس کے خاوند نے اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ چوہدری کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر شریف گھرانے کی اس عورت نے مستقلا چپ سادھ لی۔ اسی خاموشی کے دوران اس کا جسم اور شباب ڈھلتا چلا گیا۔ پھول کی کلی کی طرح مہکنے والی عورت چند دنوں میں مریضہ نظر آنے لگی۔ چوہدری رفیق کے والدین نے جب بہو کی حالت دیکھی تو انہیں احساس ہوا کہ بہت کچھ غلط ہوگیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف علاقے بھر میں چوہدری کی شازی سے دوستی کی داستانیں زبان زد عام ہوچکی تھیں۔ چوہدری کے والدین نے معاملہ کی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ بیٹا کھسرے کے عشق میں پاگل ہوچکا ہے۔ انہوں نے اسے ہر ممکن سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جس پر والدین نے غصہ میں آکر اسے جائیداد سے عاق کرکے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔ والدین کے غصے کے جواب میں اس نے بیوی کو بچوں کے ہمراہ ذبردستی اس کے گھر واپس بھجوا دیا۔ پروین دو سال تک والدین کے گھر بیٹھی رہی لیکن رفیق اس کی خبر لینے نہ آیا۔ شازی کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے چوہدری نے دوستوں سے دھڑا دھڑ قرض لینا شروع کردیا۔ قرضہ واپس نہ کرنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ دوست بھی اس سے منہ موڑ گئے۔ اس اثناء میں پروین کے گھر والوں نے رفیق سے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس نے کھسروں اور چند دوستوں کے ہمراہ سسرالیوں پر حملہ کرکے بچے زبردستی چھیننے کی کوشش کی۔ پروین کے گھر والے بدنامی کے ڈر سے چوہدری کی غنڈہ گردی کے خلاف تھانے جانے سے گریزاں رہے۔ دوسری طرف شازی کے چند کھسرے دوستوں اور ایک میراثی نے شازی کے خانقاہ ڈوگراں والے ڈیرے پر رہائش اختیار کرلی۔ شازی جو چوہدری رفیق کے ساتھ رہنے کے بعد پروگرام کرنے چھوڑ چکا تھا۔ دوستوں کے ساتھ مل کر دوبارہ دھندا کرنے لگا۔ چوہدری رفیق نے اسے باز رکھنے کی کوشش کی مگر وہ باز نہ آیا تو چوہدری نے اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس کے بعد شازی نے رفیق کو تھانے میں گرفتار کروا دیا۔ کچھ عرصہ بعد شازی اور رفیق میں دوبارہ صلح ہوگئی، صلح کی شرط یہ تھی کہ اگر رفیق چاہتا ہے کہ وہ دھندہ نہ کرے تو پھر اسے اپنی بیوی کو چھوڑنا ہوگا۔ صلح کے فورا بعد رفیق نے پروین کوطلاق بھجوا دی۔ جب بھوک اور افلاس نے ڈیرے جمائے تو شازی نے اسے مشورہ دیا کہ ہم پروگرام کرنا شروع کردیتے ہیں تم چھوٹی موٹی ویلیں دینا، بعد میں رقم بانٹ لیا کریں گے۔ چوہدری رفیق نے بھوک کے ہاتھوں نیا کاروبار شروع کیا، بعد ازاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رفیق ویلیں دیتے دیتے ڈھولک بجانے لگا۔ آج رفیق کو ڈھولک بجاتے ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے جب کہ اس کی سابقہ بیوی پروین بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے سلائی کڑھائی کا کام کررہی ہے پروین کا کہنا ہے کہ میری دعا ہے کہ اللہ پاک کسی کی بیٹی کی ایسی تقدیر نہ لکھے جو میری لکھی گئی ہے۔

No comments:

Post a Comment

Thank you for contacting us, we will response ASAP

Pages