میں شہزاد سے شہزادی کیسے بنا؟ - Haripur Today

Breaking

Sunday 27 December 2020

میں شہزاد سے شہزادی کیسے بنا؟

خواہش کھسرے یا ہیجڑے ایک مسترد مخلوق۔۔۔۔ مزید پڑھیں

میں شہزاد سے شہزادی کیسے بنا؟

میری زندگی کے اوراق پر پھیلے ہوئے ایک ایک حرف کی ابتدا اور انتہا، میں نے اپنی زندگی کے چالیس سالوں میں خود کو انسان کے مرتبے پر دیکھنے کی خواہش کی مگر ہر بار مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، پیدا ہوا تو والدین کی آنکھ کا تارا نہ بن سکا، اور نہ ہی ان کے لئے رحمت کا سبب بننے بلکہ ان کے لئے ایک تہمت کا باعث بنا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ہوش سنبھالا تو والدین کے پیار سے محروم ہونے کا احساس ہوا۔ بچے ساتھ کھیلنے سے گریز کرنے لگے، اور ہر شخص نے چھیڑنا شروع کردیا۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کے رویوں کو دیکھ کر کبھی خود پر ہنستا اور کبھی اپنے خالق سے شکوہ کرتا۔ دس برس کے بعد مجھے چند لڑکوں نے متوجہ کرنا شروع کردیا۔ انہیں دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ کچھ لوگ تو ہیں جو میرا خیال رکھتے ہیں۔ ان لڑکوں کی توجہ اور چکنی چپڑی باتوں نے مجھے اس بات کا احساس ہی نہ ہونے دیا کہ میں گناہوں کی دلدل میں دھنستا جارہا ہوں۔ ان لڑکوں کی جانب سے ملنے والے پیار نے میرے اندر حوصلہ پیداکیا۔ اور ایک دن جب میری عمر چودہ یا پندرہ سال تھی انہی دوستوں کے ساتھ میلہ دیکھنے گیا۔ وہاں پر میں نے پہلی بار موت کے کنوئیں پر کھسروں کو ڈانس کرتے ہوئے اور ان لوگوں کو ان پر پیسے نچھاور کرتے دیکھا تو میرے اندر شوق پیدا ہوا۔ میں نے ان میں سے ایک کھسرے جس کا نام کوثر تھا اور جس کی عمر 29سال تھی سے کام کرنے کی بات کی تو وہ مجھے اپنے خیمے میں لے گیا۔اور کہا کہ اس کام کے لئے گھر والوں سے دور ہونا پڑے گا۔ میرا گھر تو پہلے ہی نفرتوں کی آماجگاہ تھا اور والدین کو بھی فکر نہیں تھی۔ اس لئے جب میں کوثر کے ساتھ اگلے میلے پر چلاگیا توکسی نے بھی میری خبرنہ لی۔ کوثر نے مجھے تماش بینوں کو متوجہ کرنے کے تمام گر بتانے کے ساتھ ساتھ ڈانس بھی سکھا دیا اور جب پہلی بار میں شہزاد سے شہزادی کے روپ میں موت کے کنوئیں پر رقص کرنے کے لئے آیا تو لوگوں نے مجھے لڑکی سمجھا اور مجھ پر نوٹوں کی بارش کردی۔ اس دن مجھے اپنے حسن کا احساس ہوا، کوثر نے مجھے گائیڈ کرنا شروع کردیا اور میں نے رقص کرنے کے علاوہ راتوں کو تماش بینوں کو خوش کرنے کے لئے ان کے ساتھ جانا شروع کردیا۔ ان پانچ چھ سالوں میں میں نے بہت پیشہ کمایااور پھر لوگ مجھ سے آہستہ آہستہ دور ہونے لگے۔ پھر ایک وقت وہ آیا کہ میں نے موت کے کنوئیں پر جانا بھی بند کردیا اور کوثر کے ساتھ لاہور آگیا۔ اور ٹیکسالی میں ایک چوبارہ کرائے پر لے کر رہنا شروع کردیا۔ یہاں پر مجھے ایک گرو نے اپنے ساتھ کام پر لگا لیا، آواز خوبصورت تھی اور باچ بھی اچھا لیتا تھا اس لئے گرو نے مجھے مختلف تقریبات میں لے جانا شروع کردیا جن میں ذیادہ تر بچوں کی پیدائش کے فنکشن ہوتے تھے۔ بچوں کی پیدائش پر ودھائی مانگنے کے لئے جانے پر مجھے ایک عجیب قسم کی کسک ہوتی ہے۔ آپ خود سوچیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس نعمت سے محروم رکھا ہوا ہے ہمیں اس کی خوشیوں میں شرکت کے لئے جانا پڑتا ہے کسی بچے کی پیدائش کا سن کر میرے دل پر جو بیتتی ہے وہ شاید میں ہی محسوس کرسکوں یا پھر مجھ جیسا کوئی اور۔۔ (شہزاد عرف شہزادی)

 

No comments:

Post a Comment

Thank you for contacting us, we will response ASAP

Pages