شادیاں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟
حصہ چہارم
شادیاں کیوں ناکام ہوتی ہیں کا حصہ چہارم پیش خدمت ہے امید ہے کہ قارئین کرام کو ہمارے اس تحریر کے دوسرے حصے پسند آئے ہونگے، جیسا کہ حصہ سوئم میں ہم نے ذکر کیا تھاکہ تاریخ کے اوراق سے ایک حصہ پیش کریں گے۔
جزیرۃالعرب میں اسلام کا آفتاب طلوع ہونے سے کافی پہلے کی بات ہے کہ ایران میں خاندان اشکانیاکے بعدخاندان ساسانیاں حکمران ہوا، اس خاندان کا ایک بادشاہ شاہ پور اول بڑا مشہور بادشاہ ہوا ہے، یہ بڑا جوان، خوبصورت اور دلیر تھا، اس نے اپنی سلطنت کی سرحدوں کو وسیع کرنے کے لئے ایک چھوٹی مگر مضبوط ریاست پر حملہ کردیا، اس ریاست کا حکمران فیرن تھا، یہ شہر کے دروازے بند کرکے قلعہ بند ہوکر بیٹھ گیا قلعے کے بالاخانے پر فوج کے ایک حصے کی کمان فیرن کی بیٹی نضیرہ کررہی تھی، شاہ پور کئی روز محاصرے سے تنگ آچکا تھا، لیکن شہر فتح ہونے کو نہ آتا تھا،۔
ایک روز جب سورج طلوع ہو رہا تھا شاہ پور زرق برق شاہانہ لباس زیب تن کرکے لاؤلشکر سمیت سیر کو نکل گیا، نضیرہ قلعے کے بالاخانے پر بیٹھی یہ منظر دیکھ رہی تھی اس سے رہا نہ گیا اور اس کے دل میں شاہ پور سے شادی کرنے کا خیال آنے لگا، مگر وہ سوچتی کہ ایک جانب باپ کی سلطنت ہے اور دوسری جانب شاہ پور جیسا بادشاہ کہ جو محاصرہ کئے ہوئے ہے، وہ تین دن تک سوچتی رہی، آخرکار شاہ پور اس کی سوچ پر غالب آگیا، لہذا اس نے اسے شادی کا پیغام بھیج دیا بادشاہ خوش تو ہوا مگر ساتھ یہ اندیشہ اور خوف بھی لاحق ہوا کہ کہیں یہ چال نہ ہو۔ چنانچہ اس نے پختہ وعدہ نضیرہ سے اس کی آبائی طلائی تلوار پر یہ معاہدہ لکھنے کو کہا، نضیرہ نے لکھ کر وہ تلوار شاہ پور کو بھیج دی، اگلے مرحلے پر شاہ پور نے شہر کی چابیاں طلب کیں، نضیرہ نے اہل شہر کی امان مانگ کر چابیاں شاہ پور کے حوالے کردیں۔شاہ پور کی فوجیں شہر میں داخل ہوگئیں نضیرہ کے باپ فیرن نے مقابلہ کیا اور مارا گیا، شاہ پور نے نضیرہ سے معذرت کرلی اور پھر وہ شہزادی کو دلہن بنا کر اپنے پایہ تخت میں پہنچ گیا۔
ایک دن دوران گفتگو نضیرہ کے باپ کی بات چل نکلی تو نضیرہ جو اپنے باپ کی اکلوتی اولاد تھی،اپنے باپ کی محبت وشفقت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگی کہ دنیا میں سب سے بڑھ کر میرے باپ کو اگر کسی سے محبت تھی تووہ اپنی بیٹی نضیرہ سے تھی وہ پرانی یادوں کے دریچے سے جھانکتے ہوئے اپنے شوہر شاہ پور کو بتانے لگی، کہ میرا باپ مجھے آئے روز طرح طرح کے ریشمی لباس پہننے کو دیتا، خادمائیں خدمت کو موجود ہوتیں،مگر اس کے باوجود میرا باپ پیار سے مجھے شہد، بالائی، مکھن، میوہ جات اور پھلوں کے جوس کے جام اپنے ہاتھ سے پلاتا۔وہ نہ جانے آگے کیا کیا کہنا چاہتی تھی کہ شاہ پور نے نضیرہ کا ہاتھ جھٹک کر یک دم کھڑا ہوگیا،اس کا چہرہ تمتمانے لگا محبت کی جگہ اب غضب نے لے لی تھی، نرمی کی جگہ سختی اپنے قدم جماچکی تھی اب شاہ نضیرہ کے لئے مہربان شوہر کے بجائے خونخوار درندہ بن چکا تھا.وہ نضیرہ سے مخاطب ہوکر یوں کہنے لگا کہ تم نے اکلوتی اولاد ہو کر اپنے باپ کے ساتھ دغا کرلیا، اپنے عشق کے لئے اپنے باپ کی سلطنت کو تباہ کیا اس کی محبتوں اور شفقتوں کا خون کردیا، اور ایک محبت کرنے والے باپ سے نمک حرامی کی، تو میرا اور میری سلطنت کا بھی ایسے ہی کام تمام کرسکتی ہے، اور قبل اس کے کہ تو ایسا کرے کیوں نہ تیرا کام ہی تمام کردیا جائے، یہ کہہ کروہ محل سے نکل گیا۔
نضیرہ چیختی رہی، دوڑ کر شاہ پور کا دامن پکڑتی رہی مگر شاہ پور اب نضیرہ کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا اس نے حکم صادرکیا کہ نضیرہ کے بالوں کو شاہی گھوڑے کی دم سے باندھ کر گھوڑے کو اس وقت تک خاردار جھاڑیوں میں سرپٹ دوڑایا جائے جب تک نضیرہ کا وجود سوائے بالوں کے باقی نہ رہ جائے۔
اس کہانی سے آپ قارئین کو کیا سبق ملتا ہے، کمنٹس سیکشن میں اپنی رائے کا اظہار کریں
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP