شادیاں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟ حصہ دوئم - Haripur Today

Breaking

Thursday, 8 October 2020

شادیاں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟ حصہ دوئم

 



شادیاں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟

حصہ دوئم

شادیاں کیوں ناکام ہوتی ہیں کا حصہ دوئم پیش خدمت ہے امید ہے کہ قارئین کرام کو پسند آیا ہوگا، اُسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔

میری عمر پچیس بر س تھی جب میں امریکہ آیا، یہاں آئے ہوئے پندرہ برس ہوگئے ہیں، اچھے وہ دن تھے جب قانونی ویزہ نہ ہونے کے باوجود نوکری مل جاتی تھی، گرین کارڈ کے لئے پیپر میرج کا رواج عام تھا، امریکی عورتیں ڈالروں کے لالچ میں معینہ مدت تک کاغذوں میں بیوی ہوتی تھی اور گرین کارڈ ملتے ہی طلاق ہوجاتی تھی، مگر کئی بدنیت عورتیں طلاق سے منحرف ہو جاتیں، نوبت جھگڑے تک پہنچتی تو گرین کارڈ منسوخ کروانے کا کہہ کر بلیک میل کیا کرتی تھیں، بچے پیدا کرتیں، شوہر کی کمائی پر عیش کیا کرتی تھیں، اور اس کی گردن کا طوق بن جاتیں، اس قسم کے واقعات نے مجھے خوفزدہ کررکھا تھا اور ویسے بھی جعلی شادی سے خوف لاحق تھا، ضمیر والا انسان بڑا خوار ہوتا ہے جمعہ کی نماز کے لئے مسجد چلا جاتا۔

ایک روز امام مسجد جس کا تعلق مصر سے تھا اپنے دل کا مدعا بیان کیا تو انہوں نے کسی مسلمان امریکی عورت سے حقیقی شادی کرنے کا مشورہ دیا اور بتایا کہ کئی عورتیں اسلام قبول کرتی ہیں اور انہیں شادی کے مسائل درپیش ہیں۔اسلام قبول کرنے والوں میں سیاہ فاموں کی اکثریت ہے انہوں نے مجھے ایک سیاہ فام عورت کا رشتہ بتایا، جسے قبول اسلام کی سزا میں عیسائی والدین نے گھر سے نکال دیا تھا اور وہ مسجد کے قریب کسی مسلمان فیملی کے گھر میں ایک کرائے کے کمرے میں مقیم ہے اور وہ اسلامی سکول میں نوکری کرنے لگی ہے،اگر تم اسے سہارا دو تو اللہ بھی راضی ہوگا اور تمہاری رہائش بھی قانونی ہوجائے گی۔ میں نے اس خاتون کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، امام صاحب نے کہا کہ مغرب کی نماز کے بعد آجانامیں اس سے تمہاری ملاقات کروا دوں گا، تمام رات سوچتا رہا کہ اگر سیاہ فام عورت سے شادی کرلی تو خاندان والے ذلیل کریں گے کہ تمہیں امریکہ جیسے ملک میں کوئی گوری نہیں ملی تھی؟ اگر کالی ہی کرنا تھی تو پاکستان میں کیا کمی تھی جیسے جملے کانوں میں گونجنے لگے، خالہ کی لڑکی کاقد چھوٹا ہونے کی وجہ سے رشتہ سے انکار کردیا تھا، اب کوئی جینے نہیں دے گا، نفس نے پریشانی اور امریکی قانون نے سولی پر لٹکا دیا۔ دوسرے روز بعدازمغرب امام صاحب مسجد سے متصل باورچی خانے میں لے گئے جہاں وہ عورت میز پر بیٹھی ہمارا انتظار کررہی تھی اس نے سیاہ برقع جسے عرف عام میں عباء کہتے ہیں اور نقاب پہن رکھا تھا، امام صاحب نے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ سسٹر صفیہ ہیں، سلام کے بعد اس نے نقاب کشائی کی تو میرا دل دھڑام سے سینے سے باہر آنے کو تھااگر میں کرسی نہ تھام لیتا تو، صفیہ انتہائی دبلی پتلی، نہایت سیاہ اور قبول صورت بھی کہنا درست نہ ہوگا،اللہ تعالیٰ کی تخلیق تھی لہذا کوئی بری بات منہ سے نہیں نکال سکتا تھا چند منٹ کی دعا سلام کے بعد لڑکھڑاتے قدموں سے گھر آگیا۔ ہم پاکستانی مردوں کو رنگت کا احساس کمتری کیا کم ہے کہ صورت بھی بھلی نہ ملے، صفیہ کے مقابلے میں خالہ کی لڑکی حورلگنے لگی، اللہ پاک نے مجھے اچھے قدوقامت اور صورت سے نواز رکھا تھا، دل اور دماغ کی جنگ میں آخر جیت دماغ کی ہوئی، سوچا گھر والوں سے خفیہ شادی کرلوں گا، گرین کارڈ حاصل کرتے ہی طلاق دے دوں گا، ان دنوں گرین کارڈ ایک سال میں مل جاتا تھا، تو امام صاحب سے میں نے ہاں کردی، اور یوں دو ہفتہ بعد ہمارا نکاح کردیا گیا،میں صفیہ کو لے کر اپنے فلیٹ میں آگیا،دل پر جبر کرکے شب وروز بیتنے لگے صفیہ کو میری سردمہری کا احساس ہوچکا تھا مگر اس نے کبھی حرف شکائیت زبان پر نہیں لایا، ہم دونوں اپنی اپنی جاب پر چلے جاتے اور شام کو لوٹ آتے۔

وہ امریکی طرف کا کھانا پکاتی، میرے سامنے میز پر سجاتی، گھر کے تمام کام کرتی، اس کے ہونٹوں کی جنبش سے ذکر الہٰی کی مہک آتی رہتی، کوئی فضول بات یا بحث نہیں کرتی، میرے اکھڑے لہجے پر خاموش رہتی، نماز،پردہ، قرآن پاک، میری خدمت، خاموشی، صبر وشکر، ان سب کو دیکھ کر میرا دل گھبراجاتا، صورت کے علاوہ کوئی برائی ہوتو میں اسے تنگ کرسکوں، جو کل کو طلاق کا سبب بن سکے مگر کچھ ایسی بات ہاتھ نہ لگی، مجھے اس سے محبت نہ ہوسکی ہاں البتہ خود پر غصہ آنے لگا کہ میں نے ایک نیک سیرت عورت کو دھوکہ دیا ہے شادی کے چاہ ماہ بعد میری جاب ختم ہوگئی نئی جاب کے لئے کوشش شروع کردی اور اس میں دو ماہ کا عرصہ بیت گیا، اس دوران صفیہ اکیلی کمانے والی تھی، مجھ بیروزگار کو گھر بیٹھا کرکھلاتی تھی، محنت کرتی اور مجھے بھی اس کا صلہ دیتی، ایک میں تھا کہ شرمندگی سے اسے کسی دوست کے ہاں دعوت پر لے جانے سے بھی کتراتا تھا۔

انہی دنوں ایک قریبی دوست کا بیوی سے جھگڑا چلتا رہا، اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی،اس کی بیوی خوبصورت تھی مگر مغرور اور بدزبان، مہمانوں کے سامنے شوہر کو ذلیل کردیتی، اس کی بدولت دوست کو گرین کارڈ ملا تھا، نخروں کا یہ عالم کہ مہمانوں کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھے اپنے شوہر کی طرف دیکھ کرکہتی یہ جانتے ہیں کہ میں کس قسم کے ماحول سے آئی ہوں، یعنی کہ اپنے مائیکہ کی امارت کا رعب ڈالتی،وہ غریب جی حضوری میں اپنا گھر بچاتا تھا، دوست کو سمجھانے گیا تو وہ بولا کہ یار! عورت گھر بناتی  اور بچاتی ہے، جس گھر کی بنیاد لالچ پر ہو اسے لاکھ سہارا دو، دیواریں گھر جاتی ہیں، گرین کارڈ جنم بن گیا ہے میرے لئے، میرے سسرال اور سالوں کو ڈاکٹر داماد چاہیے تھا یہ لوگ بھی پاکستان سے یہاں شفٹ ہوئے ہیں اور میں بھی، فرق اتنا ہے کہ ان کے ہاں ڈالر بولتے ہیں اور میں ابھی متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، یہ پاکستان جانا پسند نہیں کرتی اور کبھی چلے بھی جائیں تو جاتے ہی گاڑی کا تقاضا کرتی ہے جبکہ میرے بھائی کے پاس موٹرسائیکل ہے اور مجھے ٹیکسی پر ہر جگہ جانا پڑتا ہے پاکستان میں ہوں یا امریکہ میں اس عورت نے مجھے ذلیل کردیا ہے ڈاکٹر کی بیگم تو بن گئی ہے مگر میری بیوی نہیں بن سکی، یار ہم دونوں نے گرین کارڈ کے لالچ میں شادی کی تھی مگر تم خوش نصیب ہو جسے نیک عورت ملی ہے اسلام اس کی پسند ہے جبکہ ہمیں اسلام ناپسند کرتا ہے، جمال اور مال نے مجھے کہیں کا نہ رکھا، تم کمال کی قدر کرو، اسی میں جمال ہے،بھابی کی قدر کرو اور مجھے بھی معاف کردو، جس نے تیری شادی کا مذاق اُڑایا تھا، دوست کی حالت زار نے میرے دل کی شمع روشن کردی، ضمیر کو جھنجوڑا اور گھر جاتے ہی میں نے پہلی بار مسکر ا کر صفیہ کی طرف دیکھا،اس نے حیرت سے امریکی انداز میں کہا، ”کیا تمہیں جاب مل گئی ہے“؟ میں نے کہا نہیں تم مل گئی ہو۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بیٹا دیا اس کی پیدائش اور گرین کارڈ ملنے کے بعد والدین کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا، اب گرین کارڈ ملنے کی صورت میں پاکستان آسکتا ہوں، مگر میں نہیں تینوں، والدین کو وقتی طورپر دکھ ہوا، مگر پوتے کا سن کر خون نے جوش مارا اور ہماری آمد کے منتظر رہنے لگے، جاب بھی مل چکی تھی، ایک ماہ کی چھٹی پر وطن گئے، صفیہ نے حسب عادت برقع اوڑھ رکھا تھا، لاہور سے گاؤں جانے میں پانچ گھنٹے لگتے ہیں، گھر پہنچ کر صفیہ کے ساتھ وہی سلوک ہوا جس کا مجھے یقین تھا، اسے پنجابی نہیں آتی تھی مگرچہروں کی ذبان کون نہیں جانتا، وہ صبر کرتی رہی لیکن ایک لفظ شکائیت کا منہ سے نہیں نکالا، والد نے میرے ولیمہ اور پوتے کی عقیقہ کی خواہش پوری کی، ماں اور بہن کی نسبت باپ او ربھائی نے صفیہ کو قبول کرلیا اور اس کی سیرت کو سراہا گیا،ماں بھی خاموش تھی مگر بھابی نے سب کے سامنے کہہ دیا کہ تیری بیوی کو برقع اوڑھنے کی کیا ضرورت ہے، کون اس کی طرف دیکھے گا، نقاب تو حسن چھپانے کے لئے اوڑھتے ہیں۔  اس جملہ کے دو روز بعد ہم لاہور ائیرپورٹ ہوائی اڈے پر تھے میں اپنی باکمال بیوی کو مزید جہنم میں نہیں رکھ سکتا تھا، پاکستان میں اکثریت کو جمال ومال کی ہوس ہے، لڑکی کا رشتہ لینے جاتے ہیں تو بڑی معصومیت کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے، نہ حسن اور نہ ہی جہیز ہی کا لالچ ہے، بس لڑکی نیک اور فرمانبردار ہو، لڑکی کو دیکھتے ہی ارادہ بدل جاتا ہے، اور پھر کبھی لوٹ کر اس گھر نہیں جاتے، لڑکے سے ذیادہ لڑکے کے گھر والوں کو حسن و مال کا لالچ ہوتا ہے، صفیہ نے اپنی سیرت سے میرا دل موہ لیا مگر میرے گھر والوں کو قائل نہ کرسکی، بھابھی جیسی بدزبان کو اس گھر میں مقام حاصل ہے مگر صفیہ اپنی صورت کی وجہ سے وہاں ایک ماہ بھی خوشی سے نہ رہ سکی، گرین کارڈ کا لالچ جہنم بھی ہے اور جنت بھی ہے، میرے دوست کے لئے وہ جہنم ثابت ہوا اور میرے لئے جنت مگر اس جنت کو پانے کے لئے قربانی تو دینا پڑتی ہے، میں نے صورت پر سیرت کو ترجیع دیتے ہوئے اپنا دین اور دنیا بچا لیا، آج میرے تین بچے ہیں، اور ماں کے ہمراہ اسلامی سکول جاتے ہیں،بیٹیاں اپنی ماں کی صورت پر ہیں،میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ میری بیٹیوں کو میرے جیسا لالچی شوہر مت دینا جس کے نکاح کی بنیاد گرین کارڈ ہے نہ کہ اللہ کا خوف۔

No comments:

Post a Comment

Thank you for contacting us, we will response ASAP

Pages