ہمارے تضادات اور ہمارا معاشرہ - Haripur Today

Breaking

Wednesday, 14 July 2021

ہمارے تضادات اور ہمارا معاشرہ

 

ہمارے تضادات اور ہمارا معاشرہ

ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر ایک مذہبی معاشرہ ہے، لیکن اس میں ایک ذبردست تضاد بھی موجود ہے۔ جہاں یہ ایک مذہی معاشرہ ہے وہاں ایک بدعنوان معاشرہ بھی ہے، اس میں جہاں کثرت سے نماز روزہ کیا جاتا ہے وہاں دھڑلے سے رشوت ستانی اور ناجائز منافع خوری بھی کی جاتی ہے۔ جہاں لوگ اس کثرت سے صدقہ خیرات کرتے ہیں کہ فقیروں پر ہزاروں کی زکوۃ لگتی ہے وہاں ملاوٹ اور چوربازاری نے بھی ناک میں دم کررکھا ہے۔ مولانا مودوی نے اس تضاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ہم اپنی دکانوں اور مکانوں میں یا اللہ اور محمد کے کتنے ذوق وشوق سے لگاتے ہیں۔ فلمی اداکاروں کی تصویریں بھی اسی ذوق و شوق سے ٹانگتے ہیں۔ ہماری مذہبیت یہ ہے کہ ہمارے ملک کا نام پاکستان اور اس کے دارالحکومت کا نام اسلام آباد ہے اور ہماری بدعنوانی یہ ہے کہ ہم تمام دنیا میں ایک بدمعاملہ قوم کی حثیت سے مشہور ہیں۔ یہ تضاد اتنا تکلیف دہ ہے کہ بعض لوگ ہمارے مذہب اور ہمارے معاشروں سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ وہ یا تو یہ کہنے لگتے ہیں کہ ایسے مذہب سے کیا فائدہ جو معاشرے کے اخلاق وکردار کو بھی درست نہ کرسکے یا یہ کہنے لگتے ہیں کہ ہماری مذہبیت ایک جھوٹی مذہبیت ہے اور ہم ہر گز کسی بھی معنی میں ایک مذہبی قوم نہیں ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتہا پسندانہ رویے ہیں، لیکن ان رویوں سے قطع نظر یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ ایسے معاشرے میں جو مذہب کا اتنا چرچا کرتا ہے تو اس میں اتنی بدعنوانیاں کس طرح موجود ہیں۔ یہ سوال اس وقت اور ذیادہ اہم ہوجاتا ہے جب ہم اپنے معاشرے کا مقابلہ بعض ایسے معاشروں سے کرتے ہیں جو مذہبی نہیں ہیں۔ مثلا مغرب کے معاشروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کھلم کھلا سیکولر معاشرے ہیں وہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ ہی آخرت کو، لیکن ان کا معاشرتی اخلاق ہم سے لاکھ درجے اچھا ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اُن کا تصوراخلاق ہم سے مختلف ہو، لیکن ان کا جو بھی تصور اخلاق ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہمارے اندر یہ تضاد کیوں موجود ہے؟ اس سوال کے بعد دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ تضاد کس طرح دور کیا جائے؟

کچھ لوگ اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ بدعنوانیا ں ہر زمانے اور ہر معاشرتے میں موجود رہی ہیں، کسی زمانے میں بھی کسی معاشرے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بدعنوانیوں سے مکمل طور پرپاک معاشرہ تھا۔ بڑے بڑے پیغمبروں، بانیان مذاہب اور مصلحین اخلاق کی موجودگی میں بھی لوگ بدعنوانیاں کرتے تھے اور اخلاقی برائیاں موجود ہوتی تھیں۔ پھر اگر ہمارے معاشرے میں یہ بدعنوانیاں اور برائیاں موجود ہوتی ہیں تو ان پر اتنی تشویش کی کیا ضرورت ہے؟

ہمارے نزدیک یہ جواب اس لئے درست نہیں ہے کہ کسی فرد یا معاشرے کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ مطلق معیارات سے نہیں ہوتا ہے۔ اچھا آدمی اُس کو نہیں کہتے ہیں جس میں کوئی برائی نہ ہو بلکہ اچھا آدمی وہ ہوتا ہے جس کی اچھائیاں اس کی برائیوں سے ذیادہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح معاشرہ وہ اچھا ہوتا ہے جس میں اچھائیاں برائیوں سے ذیادہ ہوں، چنانچہ موجودہ معاشرے پر اعتراض یہ نہیں ہے کہ اس میں کچھ برائیاں کیوں موجود ہیں، اعتراض یہ ہے کہ برائیاں اچھائیوں پر غالب کیوں ہیں؟ کچھ لوگ یہ بات تو تسلیم کرتے ہیں کہ معاشتے میں برائیان اچھائیوں پر غالب ہیں وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ہماری مذہبیت کو دیکھتے ہوئے ہماری بدعنوانیاں ایک ایسا تضاد ہیں جو ہمارے پورے اجتماعی طرز عمل کو ایک معمہ بنا دیاتا ہے۔لیکن یہ لوگ ان باتوں کو تسلیم کرنے کے باوجود ان کا تجزیہ نہیں کرتے۔ اپنی گفتگو اور تحریروں میں وہ صرف لفظ بدل بدل کر صورت حال کو بیان کرتے رہتے ہیں اور ایک لمحے کو اس بات پر غور نہیں کرتے کہ مرض یا علامات مرض کو بیان کرنا سبب مرض کی تشخیص نہیں ہے اور چونکہ اس تشخیص کے بغیر علاج بھی ممکن نہیں ہوسکتا اس لئے ایسے لوگوں کی گفتگو سے کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور نہ ہی تحریروں سے۔ ایک گروہ اور بھی ہے جو مذکورہ بالا دونوں گروہوں سے مختلف ہے اس گروہ کے نزدیک معاشرے میں جو بدعنوانیاں یا برائیاں موجود ہیں ان کا سبب لاعلمی اور ناواقفیت ہے اس گروہ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ لوگ برائیوں میں اس لیے مبتلا ہیں کہ انہیں یہ بات معلوم نہیں ہے کہ وہ جو کام کررہے ہیں وہ برے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ ہر وقت اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ برا کیا ہے، اچھا کیا ہے، وہ قرآن حکیم، احادیث شریف اور صالحین امت کے اقوال کی تبلیغ و اشاعت اس امید ہے ساتھ کرتے ہیں کہ لوگوں کو جب معلوم ہوجائے گا کہ ہمارا مذہب کس چیز کو اچھا اور کس چیز کو براسمجھتا ہے تو لوگ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ ہمارے نزدیک مرض کی یہ تشخیص درست نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ بدعنوانیوں اور برائیوں میں اس لئے مبتلا نہیں ہے کہ اسے برائیوں کا علم نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ برائیوں سے خوب واقف ہے کون نہیں جانتا کہ رشوت لینا برا ہے، دھوکا دینا برا ہے، ناجائز منافع خوری، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور دورغ گوئی، وعدہ خلافی، گندم نما جو فروشی، فحاشی اوربے حیائی یہ سب برے اعمال ہیں ہر شخص ان برائیون سے خوب واقف ہے اور اس کے باوجود ان میں مبتلا بھی ہے۔ چنانچہ جب یہ تشخیص غلط ہے تو علاج کی تجویز بھی غلط ہے۔ ہم روز دیکھتے ہیں کہ مسجدوں کے منبروں سے سیرت طیبہ کے جلسوں میں صحابہ کرام ؓ اور صلحائے امت کے یوم پیدائش اور یوم وفات کی تقریبات میں ریڈیو، ٹی وی، اخبارات اور رسائل کے مضامین اور تقریروں میں ہر وقت اچھائیاں اور برائیاں ہی بتائی جاتی ہیں۔ مگر ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مرض کی دوا درست نہ ہو تو اس کی ڈوز میں اضافہ مرض کو دور نہیں کرسکتا۔

ایک چوتھے گروہ کے نزدیک بدعنوانیوں کی افراط قانون کی بے اثری ہے، اس گروہ کے لوگ امید رکھتے ہیں کہ اگر قانون کو سختی سے نافذ کر دیا جائے تو معاشرہ رات کی رات میں درست ہوسکتا ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ تجویز بھی صورت حال کے مکمل تجزیے کی بغیر پیش کی جاتی ہے۔ اس سے معاملہ جزوی طور پر درست ہوسکتا ہے۔ کوئی معاشرہ صرف قانون کی سختی سے درست نہیں ہوتا جبکہ وہ خود اس سے تعاون پر آمادہ نہ ہو۔ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ ہر نیا قانون برائیوں میں نیا اضافہ کرتا ہے اور قانون کو سخت تربنانے کے لئے جتنے اقدامات کئے جاتے ہیں وہ معاشرے میں ذیادہ برائیاں پیدا کرتے ہیں۔ مثلا ہر شخص جانتا ہے کہ رشوت کی سزا کو جتنا سخت بنائیے، رشوت کی مقدار میں اتنا ہی اضافہ ہوجائے گا۔ ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے مرض کا اس وقت تک کوئی علاج ممکن نہیں ہے جب تک ہم صحت کے ساتھ اس کے اسباب کا تعین نہ کرلیں اور اس کے بعد ان اسباب کو دور کرنے کے لئے ہمہ گیر طور پر کوشش نہ کریں۔ ہمہ گیر کوشش سے ہماری مراد اس کوشش سے ہے جس میں معاشرے کے وہ تمام افراد حصہ لیں جو صورتحال کی اصلاح کے متمنی ہیں اور جن کے لئے معاشرے کی موجودہ حالت کسی حالت میں بھی قابل قبول نہیں ہے۔ حکومت، تجارت، معاشرت، خاندانی ماحول غرض زندگی کے ہر شعبے میں ان افراد کو مل جل کر کام کرنا پڑے گا۔ اور پوری قوت سے اصلاح معاشرہ کے کام میں حصہ لینا ہوگا۔ قبل اس کے کہ ہم اپنے طور پر بدعنوانیوں اور برائیوں کے غلبے کے اسباب تجویز کریں اور اس کے حل کی تجویز پر غور کریں، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دینی حثیت کا تعین کرلیں۔ یعنی یہ دیکھیں کہ جن برائیوں میں ہم مبتلا ہیں۔ کفیت کے اعتبار سے اسلام انہیں کس درجے کی برائی قرار دیتا ہے۔ سوال کی وضاحت شاید ایک مثال سے بہتر طور پر ہوسکے گا۔ مثلا اسلام کے نزدیک برائی کفر ہے۔ یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا انکار، دینی اعتبار سے یہ سب سے بڑی برائی ہے، دوسری برائی شرک ہے، یعنی ایک سے ذیادہ خداؤں کی پرستش اور خدا کی واحدانیت سے انکار یہ بھی کفر ہی کے درجے کی برائی ہے۔ اس کے بعد تیسری برائی نفاق ہے، یعنی کفر کو چھپانا اور ایمان کو ظاہر کرنا۔ یہ بھی کفر کے درجے کی برائی ہے۔ چوتھی برائی تحریف ہے یعنی اپنی اغراض کے لئے خدا کے احکام میں دروبدل کرنا۔ قرآن حکیم میں یہ چاروں برائیاں تفصیل سے بیان ہوئی ہیں۔

اس کے بعد ان برائیوں کا نمبر ہے جنہیں ہم روحانی برائیاں کہتے ہیں۔ مثلا نماز نہ پڑھنا، روزے نہ رکھنا، اس کے بعد اخلاقی برائیاں، مثلا جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، حقوق العباد ادا نہ کرناوغیرہ شامل ہیں۔ اس کے بعد نفس کی برائیاں ہیں مثلا تکبر، حرص وہوس وغیرہ۔ اسلام میں ان برائیوں کی حدبندی ہے اور اسی حدبندی کے حساب سے ان کی جزاء وسزا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام چارعناصر کا مجموعہ ہے۔ ایمان، عقائد، عبادات، اخلاقیات اور احکام۔ چنانچہ پہلے درجے کی برائیاں وہ ہیں جو ایمان وعقائد سے تعلق رکھتی ہیں، دوسرے درجے کی برائیاں وہ ہیں  جو عبادات سے تعلق رکھتی ہیں، تیسرے درجے کی برائیاں وہ ہیں جو اخلاقیات سے تعلق رکھتی ہوں۔ خدا کے فضل سے ہم میں ایمان، عقائد اور عبادات کی برائیاں ذیادہ کثرت سے موجود نہیں ہیں۔ ہم توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور ہمارا ایمان اس طرح کا ہے کہ ہم بحثیت مجموعی ان کے خلاف کسی کے بات برداشت نہیں کرتے اور وقت آنے پر اس کے لئے جان دینے اور جان لینے کو بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ عبادات میں ہم سے غفلت کتنی ہوتی ہے لیکن خدانخواستہ ہمارا معاشرہ عبادت کا منکر نہیں ہے اور گئی گزری حالت میں بھی نماز، روزہ، حج، زکوۃ کی ادائیگی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری برائیاں دینی اعتبار سے صرف اخلاقی درجے کی برائیاں ہیں۔

اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں، آپ نے کچھ لوگوں کو کہتے سنا ہوگا کہ ہمارے معاشرے سے سیکولر معاشرے بہتر ہیں، کیونکہ ان کا اخلاق معاشرہ ہم سے بہتر ہے اور وہ ہماری طرح بدعنوانیوں کا شکا نہیں ہے۔ یہ نقطہ نظر بعض حلقوں میں اتنا عام ہے کہ ان کے نزدیک سیکولر معاشرے مثالی درجے رکھتے ہیں جبکہ ہمارا پنا معاشرہ انہیں صرف برائیوں کا مجموعہ نظر آتا ہے۔ دینی نقطہ نظر سے یہ رویہ یکسر باطل ہے۔ دینی نقطہ نظر سے کوئی کافر معاشرہ، مومن معاشرے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ خواہ وہ اخلاقی اعتبار سے کتنا ہی بہتر کیوں نہ ہو، کیونکہ اس کی بنیاد جن عناصر چہارگانہ پر ہے اُن میں اخلاقیات کا درجہ سب سے آخر میں ہے۔ اخلاقیات کو ایمان، عقائد اور عبادات ترجیع دینا ایک ایسا نقطہ نظر ہے جو خالص عہد جدید کی پیداوار ہے اور ہمارے یہاں سرسید سے پہلے وجود نہیں رکھتاتھا۔

بہرحال دین ایک کُل ہے اور کُل کے جزو کا نقصان بھی کُل ہی کا ایک نقصان ہوتا ہے اس اعتبار سے اخلاقیات کی بھی ایک اہمیت ہے اور اہمیت کو نظرانداز کرنا ایمان کے ضعف کو ظاہر کرتا ہے۔ اس بات کو پوری وضاحت سے بیان کرنے کے لئے ہم مسئلے کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔

ہم کہہ چکے ہیں کہ دین اک کُل ہے جس کے تمام اجزء باہم مربوط ہیں اور انہیں کسی طرح بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ دین میں سب سے پہلے ایمان وعقائد کا درجہ ہے پھر عبادات کا جنہیں حقوق اللہ کہا جاتا ہے۔ حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد آتے ہیں، یعنی وہ حقوق جو بندوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماں باپ پر اولاد کا حق، اولاد کا ماں باپ پرحق، آجر پر اجیر کا حق اور اجیر پر آجر کا حق۔حاکم پر رعیت کا حق اور رعیت پر حاکم کا حق ان سب کا تعلق اخلاقیات سے یہ انسانوں کے باہمی رشتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب بندوں میں چونکہ سب شامل ہیں اس لئے بندے کی حثیت سے ہر انسان پر اس کے نفس کا بھی حق ہے۔ کھانا، پینا، زرق حاصل کرنا، زندگی کی جائز ضروریات کو پورا کرنا انہی حقوق میں آتا ہے یہ حقوق نفس کہلاتے ہیں یہ سب چیزیں مل جل کر ایک وحدت بناتی ہیں اور دین کے کلی تصور میں شامل ہیں۔ نجات اخروی کا انحصار ان سب کی تکمیل پر ہے، دوسرے لفظوں میں ہم اس بات کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ دین کُل کا کُل حقوق اللہ سے تعلق رکھتا ہے۔ حقوق العباد اور حقوق نفس بھی اللہ کے حکم سے قائم ہوتے ہیں اور اسی کی رضا کے لئے ادا کئے جاتے ہیں۔ان معنوں میں مسلمان کی پوری زندگی عبادت بن جاتی ہے۔ لیکن تجزیے کی غرض سے ہم ان اجزاء کو الگ الگ بھی کرتے ہیں اور ان کے درمیان درجہ بندی بھی کرتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرے زاویے سے حقوق اللہ کو حقوق العباد پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ دین میں اصل چیز تو خدا سے رشتہ ہے باقی سب رشتے اس کے تابع ہیں۔ لیکن ایک دوسرے زاویے سے حقوق العباد کی اہمیت بھی کم نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو معاف کرسکتا ہے لیکن حقوق العباد کو اللہ اس وقت نہیں معاف نہیں کرے گاجب تک بندے ان حقوق کو معاف نہیں کریں گے، نجات اخروی کے اعتبار سے حقوق العباد کی یہی اہمیت ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ ہمارا معاشرہ جن برائیوں میں مبتلا ہے وہ اخلاقی برائیاں ہیں، یعنی انسانوں کے باہمی رشتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایمان، عقائد اور عبادات کے بعد اخلاقی برائیاں چوتھے نمبر پر آتی ہیں اس لیے یہ ہرگز نہیں کہا سکتا کہ ہمارا معاشرہ خدانخواستہ کافر معاشروں سے ذیادہ بگڑا ہوا ہے۔ لیکن اخلاقیات بھی دین کا جزو ہے اس لئے اخلاقی برائیوں کو دور کرنا ہرمسلمان کا فرض ہے۔اب کچھ بنیادی سوال ہیں:

(۱) یہ برائیاں کیوں پیدا ہوئیں؟

(۲) ان کو درست کرنے کی تدبیر کیا ہے؟

 


No comments:

Post a Comment

Thank you for contacting us, we will response ASAP

Pages