ایک غریب صفائی والے کا نابینا بیٹا کیسے پی ایچ ڈی ڈاکٹر بنا ڈاکٹر صابر مائیکل - Haripur Today

Breaking

Wednesday, 23 December 2020

ایک غریب صفائی والے کا نابینا بیٹا کیسے پی ایچ ڈی ڈاکٹر بنا ڈاکٹر صابر مائیکل



ڈاکٹر صابر مائیکل

ایک غریب صفائی والے کا نابینا بیٹا کیسے پی ایچ ڈی ڈاکٹر بنا اور کیسے پوری دنیا میں جاکر اپنے لوگوں کی نمائندگی کررہا ہے

معذوری اکثر لوگوں کے لئے بہت بڑا سانحہ ہوتی ہے، بڑے بڑے دل ایک بار تو کانپ کے رہ جاتے ہیں پھر وہ لوگ جن کے گھر میں ایک سے ذیادہ معذور بچے ہوں ان کے والدین کی راتیں اکثر کروٹیں بدلنے میں ہی کٹ جاتی ہیں، مستقبل کی بے یقینی ان کا سکون چرا لیتی ہے۔ یہ ایک ایسے ہی غریب گھرانے کی کہانی ہے جہاں تین بچے نابینا پیدا ہوئے۔ والدین بڑی مشکل سے سڑک پر صفائی کا کام کرکے گزربسر کرپارہے تھے ان حالات میں تعلیم تو بہت دور کی بات ہے انسان کے لیئے دو وقت کی روٹی بڑی مشکل ہوجاتی ہے۔

انہی مشکل ترین حالات میں پلنے والا ایک بچہ صابرمائیکل تھا جو 1978میں کراچی میں پیدا ہوا، جس میں آگے بڑھنے اور زندگی کو کارآمد بنانے کی لگن تھی، وہ کچھ کرگزرنے کے لئے ہر وقت بے چین رہتا تھا، لیکن آنکھیں روشنی سے محروم تھیں پھر ایک دن اس کی یہ لگن اس کی نن مس روز نے بھانپ لی، انہوں نے اسے لے جاکر اوکاڑ کے سکول فاربلائنڈ چلڈرن میں داخل کروا دیا۔ یوں سات برس کی عمر میں وہ کراچی سے اوکاڑہ چلا گیا، اس نے خوب محنت سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی اور پورے سکول میں اپنی پہچان بنائی، جب وہ نویں اور دسویں جماعت کے دور سے گزر رہا تھا تو اکثر اس کے دوست ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی باتیں کرتے تھے تب وہ اپنی منزل سے ناآشنا تھا وہ سوچا کرتا تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر کیا بنے گا۔ اسے یہ فکر کبھی نہیں رہی کہ وہ غریب والدین کی اولاد ہے شاید وہ اس کی تعلیم جاری نہ رکھواسکیں۔ وہ اگر کچھ سوچتا تھا تو یہ کہ اس کی یہ معذوری کے ساتھ اس کے لئے کون سا شعبہ ذیادہ مناسب رہے گا۔ اور پھر جب اس نے میٹرک مکمل کرلیا تو وہ کراچی لوٹ گیا۔ سکول کے دس سالوں نے اس کے اندر موجود شعور کی آنکھ کو بیدارکردیا تھا اس کے جذبے میں مزید اضافہ ہوچکا تھا کچھ کرگزرنے کا جذبہ، کچھ پانے کا جذبہ، اپنے لوگوں کے لئے کچھ کردکھانے کا جذبہ۔

پھر وہ کالج جانا شروع ہوگیا اس نے نیلسن منڈیلا کی تحریک کے بارے میں سنا تو اساتذہ سے فرمائش کرکے وہ نیلسن منڈیلا کی تقایر کے ترجمعے سنا کرتا ان کی باتوں سے اس نے بہت کچھ سیکھا اور اسے پہلی دفہ پتہ چلا کہ وہ ڈاکٹر بن سکتا ہے، معذوری ہو، بینائی نہ ہو، معاشی حالات سخت خراب ہوں تو مسائل میں خودبخود اضافہ ہوجاتا ہے اسے بھی پڑھائی کے دوران بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا سکول وکالج آنے جانے کی مشکلات سے لے کر کتابوں کو خود بریل میں لکھنے تک بے شمار چیزیں اسے اکثر بے بس کردیتی تھیں لیکن وہ ہارماننے میں سے ہرگزنہیں تھا۔

اسے اپنی کلاس کے دوستوں میں بھی کوئی لگن اور جذبے والا دوست نہ مل سکا، اکثریت سب کچھ حالات پر چھوڑے ہوئے تھی۔ مطالعہ نے اس کا شعوربڑھا دیا تھا وہ اب اپنے سے ذیادہ اپنی پوری کمیونٹی کے بارے میں سوچتا تھا۔ اسے شدت سے اس بات کا احساس تھا کہ اس کی کرسچن کمیونٹی میں رہنمائی کا شدید فقدان ہے وہ جان گیا تھا کہ باقی ملکوں میں کرسچن نے تعلیم کے ذریعے  عزت اور مقام پایا ہے اور تعلیم ہی ان کے معاشی حالات کو بہتر بناسکتی ہے۔ یہ احساس بڑھتا چلا گیا اور وہ تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کالج سے یونیورسٹی پہنچ گیا  اس نے اپنے انہی حالات اور اسی معذوری کے ساتھ نہ صرف گریجویشن، ماسٹرز اور ایم فل کیا بلکہ پی ایچ ڈی میں بھی پہنچ گیا اس نے اسی بات پر اپنی ریسرچ مکمل کی کہ معاشرے میں کرسچن اقلیت کس طرح اپنی معاشی صورتحال کو بہتر بنا سکتی ہے، یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کسی اقلیتی کمیونٹی سے اقلیتوں کے سماجی ومعاشی مسائل پر ریسرچ کے بعد ایک ایسا مقالہ جمع کروایا گیا تھا۔ اقلیتوں پر اب تک جتنا بھی کام ہوا تھا وہ ان کے انسانی حقوق کے حوالے سے ہوا تھا یہ سہرا بھی صابرمائیکل کے سرجاتا ہے۔

28برس کی عمر میں صابرمائیکل نے غربت کی انتہائی لکیر پر رہتے ہوئے اپنی بے نو ر آنکھوں کے باوجود 2006میں کراچی یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں پی ایچ ڈی مکمل کرلی۔ صابرآج ریسرچ ایڈوکیسی اینڈ سوشل ٹریننگ انسٹیوٹ کا صدر ہے وہ اپنا مقالہ پڑھنے سب سے پہلے انگلینڈ گیا، اس کے بعد وہ خصوصی ٹریننگ کے لئے جینوا، سوئزرلینڈ چلاگیا،  2011میں اس نے برابری کے حقوق پر کینیڈا سے ٹرینگ حاصل کی وہ اپنی ریسرچ کے سلسلے میں انگلینڈ، اٹلی، ملائیشیا، سوئزرلینڈ اور فرانس کے سفر کرچکا ہے اور ساری دنیا میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان کی نمائندگی کرتا رہتا ہے وہ بے شمار تنظیموں کا ایگزیکٹو ممبر اور رکن کی حثیت سے خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ صابرمائیکل پاکستان کی ایک زندہ اور روشن مثال ہے، جس نے غربت اور معذوری کا جواں مردی سے مقابلہ کیا اور اپنے خاندان کے ساتھ پوری کمیونٹی کا ہیرو بنا۔ آج کل وہ کراچی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حثیت سے اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے اور اس پیارے وطن کے لئے روشن ستارے کی حثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر صابرمائیکل کی کہانی میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے اگر آپ ایمانداری سے اپنے سوالوں کے جواب ڈھونڈنا چاہیں تو آج کل کے بے شمار نوجوانونں کے لیئے اس میں موجود ہیں:۔

 آپ انتہائی غریب ہیں؟

آپ کا کوئی سوشل سٹیٹس نہیں ہے؟

گھر میں تنگدستی کے ساتھ معذوری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں؟

آپ اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں جانتے لیکن اس سب کے باوجود بھی آپ کے لئے کامیابی ممکن ہے، بس شرط صرف

 اتنی سی ہے کہ آپ مایوس انسان نہ ہوں۔ آپ عہد کرلیں کہ آپ نے حالات کا مقابلہ کرنا ہے فتح یقینا آپ کا مقدر ہوگی۔ ڈاکٹر صابر مائیکل کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ:۔

جب مقصد واضح ہوجائے تو منزلیں آپ کی منتظر رہتی ہیں، وہ آپ سے آپ کی ذات اور حالات کا نہیں پوچھتیں ہیں وہ فقط آپ کے جذبے اور ہمت کو قبول کرتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Thank you for contacting us, we will response ASAP

Pages