چھوٹی سی تربت، عبدالستار ایدھی
وہ ایک انوکھا آغاز تھا، دن کی ابتدا ٹیلیفون کی ہنگامی گھنٹیوں سے ہوئی مگر اب۔۔۔ ہیلی کاپٹر کے پنکھوں کے شور نے ہر آواز کو دبا دیا تھا۔ مجھے اپنے جسم میں کھچاؤ محسوس ہوا اور بے چینی سے میرا وجود تناؤ کا شکار ہوگیا۔ میں نے اپنی حفاظتی سیٹ باندھ لی اور ہیلی کاپٹر کے اڑنے کا انتظار کرنے لگا۔ سال 1992اور جولائی کی 9ویں تاریخ۔۔۔ صبح کے تین بجے راولپنڈی سے رواں دواں ایک مسافر ریل گاڑی گھوٹکی کے ریلوے اسٹیشن پر جڑانوانہ سے آنے والی ایک مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی، 100کے قریب بدنصیب افراد کے مرنے اور زخمی ہونے کی خبر پہنچ چکی تھی، ایدھی ہیڈکوارٹرز کا عملہ نیند سے بیدار کو کر حرکت میں آچکا تھا۔ ان کے کام کی رفتار، وقت کی ضرورت سے کہیں تیز تھی۔
مصائب کی یلغار کے باوجود اپنے حواس قائم رکھنا میری عادت ہے۔ لہذا کسی بھی دکھ اور مصیبت میں اپنے آپ کو دھکیلنے کے لئے مجھے کوئی ذیادہ کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ میں اس طرح کام کرتا ہوں جیسے ایک مردہ، انسانی درد کو مزید سمجھ کر پھر سے زندہ ہوا ہے۔ اس وقت مجھے نہ سردی کا احساس ہوتا ہے، نہ ہی گرمی، نہ خوف اور نہ ہی تھکن محسوس ہوتی ہے۔ اپنی ذات سے بیگانہ، کام میں ڈوبا ہوا، خود اپنے وجود اور نام کے احساس سے ناآشنا۔۔۔۔ پر آج صبح ایسا نہیں تھا، کوئی چیز مجھے ان بے ہنگم آوازون کے شور سے بیگانہ کررہی تھی۔
ہیڈکواٹر سے ہدایات دی جارہی تھیں۔ معلومات حاصل کی جارہی تھیں۔ وائرلیس پر گڈمڈ باتوں کا کہرام۔۔۔۔ ہر آواز دوسری آواز کو دبا رہی تھی۔۔۔ یہ ہنگامہ جو میری زندگی کا معمول ہے۔ آج مجھے کچھ پریشان کررہا تھا۔ ہر چیز نئی لگ رہی تھی۔ میرادل آج کہیں اور تھا۔ میرے اندر کی یہ تبدیلی ہر لمحہ بڑھتی چلی جارہی تھی۔ میں ایک فرق محسوس کررہا تھاکام کی جلدی کے باوجود میں تیز نہیں ہوپارہا تھا، میرے پاؤں بوجھل ہو رہے تھے۔۔۔ وہ میرے پاؤں تھے ہی نہیں لیکن۔۔۔ میرے دل میں جیسے کوئی انجانا بوجھ آن پڑا تھا۔۔۔ مگر کیا۔۔۔؟
جو قیامت برپا تھی۔۔۔ اس کا سامنا کرنے کے لیئے ہر شخص میٹھا در میں چوکس کھڑا تھا۔ میرے تیار ہونے سے پہلے نرسیں، ڈاکٹر، دوائیاں، ایمبولینس گاڑیاں، تابوت اور دوسرا سامان گھوٹکی روانہ کردیا گیا تھا۔ لیکن آج کا دن اور دنوں سے مختلف کیوں تھا؟ اس قدر مختلف کہ میں جب میٹھادر سے ہوائی اڈے کے لیئے روانہ ہوا تو بلقیس نے حیرانی سے پوچھا ”لگ رہا ہے، آج آپ جانا نہیں چاہ رہے۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟“
میرے قدم دروازے پر رک گئے، بلقیس کا سوال عجیب سا لگا، میں نے سوچا کہ اس نے میرے رویے میں کیا تبدیلی محسوس کی ہے، وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ بیماری نے بھی مجھے کبھی کام کرنے سے نہیں روکا۔ پھر یہ کیا تھا؟ شاید آج میں اپنے آپ میں گم تھا، لیکن کیوں؟ یہ نئی تبدیلی مجھ میں کیسے آئی؟ کیا انسانی دکھوں کے لئے میرا جذبہ دھندلا گیا تھا؟ کیا میں اپنی زندگی کے واحد مقصد سے بھاگ رہا تھا؟ نہیں، یہ بات نہیں تھی مگر پھر کیا بات تھی؟
دو گھنٹے کا یہ طویل ہوائی سفر ایک نہ ختم ہونے والا سفر لگ رہا تھا۔۔۔ منتشر خیالات کی یلغار۔۔ وقت جیسے تھم سا گیا تھا اور ہیلی کاپٹر میں پہلے سے موجود خاموشی اوربڑھ گئی تھی۔ ہم سکھر کے اوپر سے پرواز کررہے تھے میں نیچے حد نظر تک سپاٹ اور بنجر زمین کو دیکھ رہا تھا اور آنے والے لمحات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
اچانک پائلٹ کو وائرلیس پر ایک پیغام موصول ہوا جسے میں نہ سن سکا، پائلٹ نے اونچی آواز میں پوچھا ”مولانا! کیا آپ کا نواسہ ہسپتال میں ہے؟“ میں کانپ اُٹھا، اس کی طرف مڑتے ہوئے میں نے پوچھا ”کیوں“؟ اس نے بڑے دُکھ سے کہا کہ ”مولانا! وہ فوت ہوچکا ہے“۔
ہیلی کاپٹر میں موجود لوگوں سمیت میں نے اپنے نواسے کے لئے دُعا کی اور ہم سب نے ایک ساتھ بلند آواز میں ”ان للہ و ان الیہ راجعون“ کہا، ہم گھوٹکی سے صرف دس منٹ کے فاصلے پر تھے، پائلٹ نے واپس مڑنے کا مشورہ دیا۔ نہیں نہیں میں نے کیا، اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ ہمیں خاصا کام کرنا ہے بلقیس کو بتائیں کہ وہ اس کی تدفین کی انتظام کرے اور میرا انتظار نہ کرے۔ کتنے ہی قریبی اور درینہ تعلقات ہوں، میں نے سٹاف کو اپنے ذاتی معاملات میں کبھی نہ الجھایا۔ میرے نواسے کے ہسپتال میں داخل ہونے کو کسی کو علم نہ تھا۔ غالبا اسی وجہ سے پائلٹ نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔ میرے نواسے کی موت نے مجھے اتنا صدمہ پہنچایا کہ میں خود بھی حیران ہوگیا۔ زندگی میں، میں نے بہت سے حادثے دیکھے، کبھی بھی اندر سے اپنے آپ کو اتنا خالی خالی محسوس نہیں کیا۔
میں تقریبا نصف صدی سے شب و روز اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ گزرتے ہوئے ہر لمحے نے مجھے مایوس اور زندگی کی نعمتوں سے محروم نچلے طبقے کے قریب کیا۔ اب میں ایک تھکن سی محسوس کررہا تھا۔ جیسے مجھے کبھی آرام نصیب نہ ہوا ہو۔ میراکام، میری زندگی پر حاوی ہوچکا تھا۔ بلال، میرا نواسہ، ایک ایسے وقت میں آیاجب میری زندگی ڈگر پر چل نکلی تھی۔ میری بیوی نے حتی الامکان کوشش کی کہ وہ کام سے کچھ وقت نکال کر بچوں کو دے سکے لیکن اس کی ممتا کی تسکین کے لئے وہ وقت بھی ناکافی رہا اور ہمارے اپنے بچے، نانی کے زیرسایہ پروان چڑھے۔
ہماری بائیس سالہ بیٹی کبرٰی اپنے خاوند سے علیحدگی کے بعد گھر آئی تو دوسرا بیٹا بلال پیدا ہوا، ایسا لگتا تھا کہ وہ ہمارے لئے ہی آیا ہو۔ اس نے میری شخصیت کا وہ حصہ ڈھونڈ لیا جو شاید میں خود بھی کھو چکا تھا۔ میں نے اپنا دل کا ایک حصہ اس کے لئے وقف کردیا لیکن اسے اکثر یہ یاد بھی دلاتا کہ بیٹا میں یہ لمحے تمہیں عارضی طور پر دے رہا ہوں۔ ضرورت پڑی تو میں انہیں تم سے واپس لے لوں گا۔ لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ اپنا وقت مجھے ادھار دے رہا تھا۔
اس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے یاد آتے ہیں تو میرا دل ڈوب ڈوب جاتا ہے۔ وہ میرے ساتھ صبح سویرے ہی اُٹھ کھڑا ہوتا، ناشتہ کرتا اور پھرمیرے ساتھ مل کر باسی روٹی کھاتا۔ وہ ہمیشہ ایک ہی سوال کرتا۔۔۔ نانا آپ باسی روٹی کیوں کھاتے ہیں؟ کیا آپ کو تازہ روٹی نہیں ملتی؟ اور میں ہمیشہ اسے یہ سمجھاتا کہ اس طرح خود کو بھوکوں کی یاد دلاتا ہوں، یہی میرا کام ہے۔۔۔ میں نے اپنے آنسو پونچھے اور غم کو چھپانے کے لیے کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھنے لگا۔ عیدالاضحی کے چاند کے نظر آتے ہی تمام ایدھی فلاحی مراکز نے ہزاروں ذہنی مریضوں، اپاہجوں اور زندگی کی مسرتوں سے محروم لوگوں کے لئے خوشیوں کا سامان کررکھا تھا۔ اس حوالے سے خواتین کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ لڑکیاں اپنے ہاتھوں پر مہندی رچارہی تھیں، دوپٹوں پر روپہلا گوٹہ لگ رہا تھا، مٹھائیوں کے ڈھیر لگ رہے تھے۔ سویاں تیار ہورہی تھیں اور تحائف کو لپیٹا جا رہا تھا۔ پر مسرت لمحات نے وقتی طور پر محرومی کا احساس ختم کردیا تھا۔ شہر کے مختلف حصوں سے کھانے کی دیگیں پک کر آرہی تھیں۔ اور ہر کوئی پرمسرت صبح کے انتظار میں تھا۔ یہ خوشیاں ان محروم لوگوں کی زندگیوں میں بہت چھوٹی اور لمحاتی تھیں لیکن وہ عام لوگوں سے ذیادہ لطف اندوز ہورہے تھے۔ بلال کلفٹن سنٹر برائے خواتین میں اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ جانے سے پہلے اس بڑے چاؤ کے ساتھ مجھے نئے کپڑے دکھائے اور معصوم لہجے میں کہا ”نانا کل میں یہ پہنوں گا، اب یہ پہنوں گا۔۔ پھر وہ پہنوں گا“ گویا وہ ایک وقت میں سب کچھ پہن لینا چاہتا تھا۔ میں نے اسے بازوؤں میں اٹھا کر کہا ”بلال۔۔۔ کیا تم جانتے ہو کہ بہت سے لوگوں کے پاس تو پہننے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔“ میری بات سنی ان سنی کرکے وہ بھاگ کر پھر اپنے کپڑوں کے پاس جاکھڑا ہوا اور بھولپن سے کہنے لگا۔۔۔ لیکن میرے پاس تو بہت ہیں، بلقیس اس کی بات پر ہنس کر کہنے لگی کہ ”آج کا دن ہی ایسا ہے کہ وہ آپ کی کچھ نہیں سنے گا“۔ عید کی صبح میں اپنے دفتر میں تھا جب میں نے سنا کہ کبرٰی نے انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں ایمبولینس طلب کی ہے۔ ہسپتال جانے کے بجائے وہ سیدھی میٹھادر آئی، کبرٰی واقعے کا اظہار کرتے ہوئے بے حد بدحواس تھی، بلال کی حالت ہی ایسی تھی کہ بوکھلاہٹ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ بری طرح جل چکا تھا۔ کوئی لفظ بھی بلال کے کرب کو بیان نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن میں نے اظہار کی اس بے بسی کے باوجود اپنی روح کی گہرائیوں میں اس کے جسم کی تپش محسوس کررہا تھا۔ وہ درد اور جلن کی شدت سے اپنی ماں کے بے بس بازؤں میں ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا تھا۔ کوئی مداوا، کوئی میسحا اور جینے کی ہر آس۔۔ سب کچھ ایک خواب نظر آرہا تھا۔ بلقیس جب تک اپنی امی کے گھر سے واپس آئیں، کبرٰی ہسپتال جاچکی تھی۔۔۔ میں دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہ جاسکا۔۔۔۔ میں نے بلقیس سے معذرت کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اگرچہ میری آنکھیں ہر قسم کے گھاؤ کو دیکھنے کی عادی ہوچکی ہیں۔ لیکن میں بلال کے جھلسے ہوئے بدن پر پھاہا رکھنے کا دلخراش منظر نہ دیکھ سکوں گا۔
اب ہم گھوٹکی کی اس فضاء میں سفر کررہے تھے جس کی اتھاہ میں دو ریل گاڑیوں کے دلدوز تصادم سے زندگی آگ، دھوئیں اور خون میں لت پت ہوگئی تھی۔ ہم اس جانکاہ سانحہ کے عین بیچ جب نیچے اترے تو ایسے لگا کہ جیسے سامنے ایک مقتل ہو۔ ایمبولینس گاڑیاں، ہولناک سائرن، زخمیوں اور لاشوں کو اٹھائے جانے کے لیئے سٹریچر بردار کارندے ادھر ادھر سرپٹ بھاگ رہے تھے۔ انتظامیہ کے لوگ، پولیس، ڈاکٹر اور دائیں بائیں بے ترتیب قطاروں میں خاموش کھڑے ساکت لوگ۔۔ عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے ہکے بکے۔۔۔ حادثے میں شکار ہونے والے لوگوں کو بے معنی پرسا دے رہے تھے ایک ہنگامہ تھا،۔۔ شور اور قیامت صغری کا منظر۔۔۔
ہنگامی حالت میں ایک شخص کو ساری صورت حال کا نگران ہونا چاہیئے۔ کیونکہ بہت سارے لوگ افراتفری مین بحران پیدا کرنے کا باعث ہوجاتے ہیں۔ میں نے اپنی ساری زندگی میں امدادی کاموں کو جلد ازجلد منطقی نتائج تک اسی طرح پہنچایا ہے۔ دائیں بائیں بکھری ہوئی لاشوں اور لہو کی باڑھ سے گزرتے ہوئے میں نے اپنی آستیں اوپر کرلیں اور پائجامہ گھٹنوں تک چڑھا لیا۔ اپنے پیاروں سے بچھڑنے والی آوازوں نے مجھے گھیر لیا تھا۔ ایدھی صاحب! میرا بچہ کدھر گیا؟ اگر آپ نے میرے باپ کو ہسپتال نہ پہنچایا تو وہ مرجائے گا۔ ایدھی صاحب، خدا کا شکر ہے، آپ آگئے ہیں۔ پولیس کہتی ہے میرا بچہ مرگیا ہے لیکن میرا دل کہتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔۔۔ آوازیں ہی آوازیں۔ میرے بچے کہاں گئے؟۔۔۔ میری ماں کہاں ہے؟۔۔۔۔ میرا بھائی کہاں گیا؟۔۔۔ مدد، مدد، ایدھی صاحب خدا کے لئے کچھ کریں۔۔۔۔ لوگ اپنے لواحقین کے بارے میں مجھ سے ایسے پوچھ رہے تھے جیسے میں اس سانحہ کا ذمہ دار ہوں۔ ایسے عالم میں بھی مجھے بلال کی یاد آرہی تھی، جیسے دو ماہ پہلے میں نے ایسی ہی دردناک حالت میں دیکھا تھا اور ہم سب اسی خوف سے دوچار ہوئے تھے۔۔ میں نے سوچا۔۔ بلال کو غسل میت کے بعد چھوٹی سی تربت میں ڈھیروں مٹی کے بوجھ تلے دفنایا جاچکا ہوگا۔
میں نے خواب وخیال کی اس جنگ میں کام شروع کردیا۔ مرنے والوں کی متروکہ اشیاء کو یکجا کیا۔ گھڑیاں، کپڑے، رخت سفر، شناختی کارڈ۔۔۔ میں نے حادثے کی جگہ پر بن جانے والے نئے نئے تربت نما ڈھیروں سے لاشوں کے پرخچے اجتماعی بے نام قبروں میں دفنانے کے انتظامات شروع کردئیے۔ اور زخمیوں کو نزدیک کے ہسپتالوں تک پہچانے کا اہتمام کیا۔ شدید زخمی مسافروں کو بذریعہ ائیر ایمبولینس کراچی بھجوانے کی ہدایات دیں۔ سکھر ہسپتالوں کے نزدیک مختلف نوعیت کے خیمے لگا دئیے گئے تھے۔ لیڈی ڈاکٹروں اور نرسوں نے زخمی عورتوں کے گھاؤ سئیے۔ ان کی مرہم پٹی کی اور جو مرگئی تھیں۔ انہیں کفنایا گیا۔ ان کا بچا کچھا سامان میتوں کے ساتھ رکھ دیا گیا تاکہ وہ ان کے لواحقین تک پہنچ سکے۔ ڈیوٹی پر موجود نرس لوگوں کے نقصانات کی شدت دیکھ کر بدحواس ہوچکی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک گھبرایا ہوا نوجوان اس نرس کے پاس آیا اور پوچھا کہ میں نے اپنا باپ تو پالیا ہے۔ لیکن میری ماں کون ہے؟ نرس یہ سن کر گھبرا گئی اور اس نے اس نوجوان کے ساتھ خود رونا شروع کردیا۔ میں نے نرس کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا ”بی بی تم انتظامیہ کی رکن ہو، تم گھبرا گئیں تو کام کون کرے گا؟ اپنے آپ کو سنبھالو اورضبط سے کام لو“۔
صرف یہی وقت تھا جب بلقیس میری مدد کو موجود نہ تھی۔۔۔ میں اس کی کمی محسوس کررہا تھا۔ وہی تھی جو میرے دکھ سکھ میں شریک تھی لیکن آج وہ ہمیشہ کی طرح میری معاون نہیں تھی۔۔۔ بلقیس کا دل میرے اوربلال دونوں کے لئے دھڑکتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس روز گھر سے چلتے وقت میرے پاؤں کیوں لڑکھڑا رہے تھے۔ بلقیس قلبی طور پر میرے اتنے ہی قریب تھی جتنی اپنے نواسے بلال کے۔۔۔ وہ بلال سے چھپن چھپائی اور پکڑن پکڑائی کھیلتی تو میں بے حد لطف اندوز ہوتا۔ کبھی وہ اسے جل دینے کے لئے بسترمیں۔۔۔ کبھی میز نے نیچے اور کبھی دروازے کے پیچھے چھپ جاتی اور جب پکڑی جاتی تو پھر پورے کمرے میں بلقیس آگے اور بلال پیچھے۔۔۔ وہ طرح طرح کے نام لے کر اور بہانے بنا بنا کر اسے کھانا کھلاتی۔۔۔
لو منہ کھولو۔۔۔ یہ کبرٰی کے لیے۔۔۔۔ یہ قطب کے لئے۔۔۔۔ اور اب یہ لقمہ فیصل کے لئے کھاؤ۔۔ اچھا اب ایک اور الماس کے لئے۔۔ اور جب میں اسے چھیڑتے ہوئے کہتا کہ ”تم یہ سب کچھ کرتے ہوئے بچہ لگ رہی ہو“ تو بلقیس جواب دیتی کہ ”ہاں۔۔۔۔ میں بھی تو ایک ماں ہوں، کیا میں اپنے بچے کے ساتھ بچہ نہیں بن سکتی؟“
بعض اوقات وہ سانس بھر کر شکورہ کرتی۔۔۔
”مجھے آج تک تو یہی کھلونا ملا ہے“
جب وہ اس کا معصوم سا ہاتھ پکڑے اپنے گھر سے لے کر ہمارے میٹھادر کے دفتر تک تنگ راستوں سے اسے چلا کر لاتی تو یہ منظر دیکھ کر میرے سارے دکھ درر دور ہوجاتے۔ اور میرا دل خوشی سے کھل اُٹھتا۔۔ اپنی نانی کی طرح بلال بھی مسکرانے اور خوش رہنے کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ ہی لیتا۔
گھوٹکی، لوہے کی پٹڑی کے گردونواح میں ایک مقتل نظر آتا تھا۔ لاؤڈ سپیکر پر خون کے عطیات کی اپیلیں کی جارہی تھیں۔ حادثے کی اطلاع پانے کے بعد لوگ اپنے اپنے قرابت داروں اور عزیزوں کی میتیں تلاش کررہے تھے۔ اس ساے کام کے لئے ایدھی سنیٹرز کی 75گاڑیاں مامور تھیں۔ میں نے دیکھا کہ اس کربناک میں بھی ایک زوال پذیر معاشرہ اپنا منفی کردار ادا کئے بغیر نہ رہ سکا۔ ایک نوجوان نے ایک لاش کو لینے کا دعوی کیا۔ گویا وہ اپنے طور پر میت کو پہچان چکا تھا اس نے مالی اعانت کے لئے درخواست فارم پر کیا۔ حکام سے رقم بٹوری اور ایدھی ایمبولینس اسے اور میت کو لے کر نزدیکی گاؤں چل دی۔ لیکن گاؤں والوں نے میت کی شناخت سے انکار کردیا کیوں کہ اس کا ان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ نوجوان یہ دیکھ کر چیکے سے کھسک گیا اور گاڑی میت کو لے کر گھوٹکی واپس آگئی۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ آج سے دوماہ قبل بلقیس اور کبرٰی کو سول ہسپتال میں ایسی ہی حالت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ جب ڈیوٹی پر مامور ایک نرس نے بلال کی سنگین حالت دیکھنے کے باوجود بڑے دھڑلے سے کہہ دیا کہ ڈاکٹر عید کی چھٹیوں کے باعث تین روز تک یہاں نہیں ہونگے۔ دوائیوں اور دیگر طبی سامان سے متعلق الماری مقفل ہء جس میں مرہم پٹی کا سامان رکھا ہوا ہے۔ چابیاں نہیں ہیں۔ لہذا مریض کو جناح ہسپتال لے جائیں۔ افراتفری اور مایوسی کے عالم میں بلال کو جناح ہسپتال کے ہنگامی وارڈ میں داخل کرادیا گیا اور کبرٰی کو ساتھ رہنے کی اجازت مل گئی لیکن بلال کی درد اور جلن بھری چیخوں اور کچی جلد پر مرہم کی سوزش نے کبرٰی کو قریب قریب بے بس کردیا اور وہ ناچار بلقیس کے بازوؤں میں بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ جب چھت کے پنکھے کی ہوا اس کے جلے ہوئے جسم کو چھوتی اور جب ہوا بند ہوجاتی۔۔ بلال کو اپنا جسم جلتا ہوا محسوس ہوتا۔ اس کے وجود سے رستے ہوئے پیپ بھرے پانی کے باعث متعدد بار بھیگی چادریں تبدیل کرنا پڑیں۔
بلقیس اور کبرٰی کو بتا دیا گیا کہ وہ کسی پرائیویٹ ہسپتال میں بچے کو لے کرجائیں کیونکہ کوئی سپیشلسٹ عید سے پہلے نہیں آئے گا بلقیس نے ان کی اس سردمہری پر احتجاج کیا لیکن بے سود۔۔۔ ہم کیا کرسکتے ہیں۔۔ کا کورا جواب بلقیس اور کبرٰی کو پرائیویٹ ہسپتال تک لے گیا جہا ں انہیں دوبارہ کہا گیا کہ سپیشلسٹ تو عید کے بعد ہی آ سکے گا۔ ہم نے تمام راستے بند دیکھ کر بیس ہزار روپے ہسپتال میں جمع کرا دئیے۔ تب کہیں جا کر بلال کو انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا جہاں اسے قدرے سکون ملا اور وہ سو گیا۔ گھوٹکی سانحہ میں ایک ہی خاندان کے ۹ افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔ جب میتیں کوٹری کے لئے روانہ کی جارہی تھیں تو غم والم کی اس گہرائی کو اچھی طرح محسوس کرسکتا تھا۔ میرا دل ان لوگوں کے لئے نڈھال تھا جو ان بے سدھ لاشوں کا استقبال کریں گے۔ بہت ساری میتوں کوکوئی دعویدار سامنے نہ آسکا لہذا انہیں بطور امانت دفن کردیا گیا۔ تاکہ بعدازاں کسی ممکنہ شناخت پر متعلقین انہیں اپنے قبرستانوں میں لے کر دفنا سکیں اور کچھ لاشیں مردہ خانوں میں رکھ دی گئیں۔ جو لوگ حادثے میں زندہ بچ گئے تھے ان میں سے اکثر ملک کے دور دراز پسماندہ علاقوں سے روزگار کی تلاش میں نکلے تھے، اپنے گھر والوں کی نظر میں وہ کئی دنوں، ہفتوں اورمہینوں تک زندہ تصور کیئے جاسکتے تھے۔ انہیں تسلی تشفی اور امدادی رقوم دے کر گھروں کو رخصت کردیا گیا۔ باقی لوگ مسافر گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنی اپنی منزل کو روانہ ہوگئے۔
میرے خیالات نے پھر بلال کی طرف پلٹا کھایا جہاں عید کے بعد کسی ماہر ڈاکٹر نے آنا تھا، ڈاکٹر کے مطابق بلال کے زخموں کی حالت کسی حد تک تشویشناک گھی۔۔۔ روزانہ کی مرہم پٹی نے بلال کی کچی جلد کو پھاڑ دیا تھا جبکہ کبرٰی مسلسل اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھی وہ اپنے رب کی شکرگزار تھی کہ بلال اتنے بڑے سانحہ کے باوجود ابھی تک زندہ ہے۔۔۔ اس نے اپنے بچے سے محرومی کے تصور کو اپنے دل سے نکال دیا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے بلال کو دیکھا تو میرے دل کی دھڑکن کس طرح بند ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ میں نے ایک لمحے کے لئے اپنے آپ کو سنبھالا دیا۔ مجھے اس بات کا تجربہ ہے کہ ایسی حالت میں دنیا کی بہترین ہسپتال بھی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ بلال کاجسم اتنی گہرائی تک جھلس گیا تھا کہ اس کی رگوں میں خون جم چکا تھا۔ تشنج اور جسم میں جراثیم کا زہر کا پھیل جانا ناگریز تھا۔
انسانی زندگی کی تباہی کا باعث بننے والی قاتل ریل گاڑیاں اب خود پارہ پارہ میتوں کی طرح دور دور تک بکھری پڑی تھیں جن سے بدبودار اور سیاہ دھواں انسانی خون کی مانند گردونواح میں پھیل چکا تھا۔ سانحہ کے بارے میں کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ تخریب کاری ہے، کچھ نے الزام لگایا کہ ریلوے عملہ کی غفلت اس حادثہ کا سبب بنی۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ ڈرائیور کو اس ٹریک پر چلتے رہنے کا گرین سگنل دیا گیا جس پر مال گاڑی کو آنا تھا۔ اگرچہ ڈرائیور نے اس المناک تصادم سے بچنے کے لئے ایمرجنسی بریک لگانے کی کوشش کی۔ لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی پھر ایک زوردار دھماکے نے سارے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اب گھوٹکی کا ماحول انسانی گوشت کی عفونت اور سڑاند سے بوجھل ہوچکا تھا۔ مرنے والے تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں تاہم لوگ پھر بھی رسمی حربوں سے انہیں دفنانے میں تاخیر کرادیتے ہیں۔ حالانکہ اسلامی فقہ میتوں کو جلدازجلد سپردخاک کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ لیکن لوگ عموما اس بات کو فراموش کردیتے ہیں۔
سورج اپنی پوری تمازت کے ساتھ زمین پر بپا ہونے والی قیامت صغری کا نظارہ کرتا رہا۔ سارا دن ہمارے سروں پر چمکتا رہا، حتی کہ جب غروب ہوا تو بھی گھوٹکی کی فضا میں آبلہ خیزگرمی سے دم گھٹ رہا تھا۔ دن گزرچکا تھا۔ میتیں اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچائی جاچکی تھیں۔ کام ختم ہوچکا تھا۔ تھکان سے رگوں میں منجمد اور خشک ہونے والے خون کے باعث میرے پاؤں اکڑ گئے تھے۔ میں اب ایک دلسوز سانحہ کے بعد مرتب ہونے والے ہولناک نتائج کی کفیت سے دوچار تھا۔ غمزدہ اور اداس۔۔۔۔ میں ایک مقام پر خاموش کھڑا ہوگیا۔
اچانک ایک بوڑھے غم ذدہ شخص نے مجھے چیخ کرپکارا۔۔۔۔
ایدھی بابا۔۔۔ میرا ایک ہی بچہ تھا جو مجھ سے چھن گیا، میں تباہ ہوگیا ہوں، کوئی نہیں جو میری مدد کرے۔۔ میں تنہا ہوں“
ادھورے اور ناقص الاعضاء بچے کی طرح وہ ایسے لگتا تھا کہ اس کا سر اس کی ٹانگوں میں پھنس کر رہ گیا ہو۔ اس کا جسم بے تحاشا چیخوں کے باعث کانپ رہا تھا اسے نہیں معلوم تھا کہ میں اس کا شریک غم ہوں، میں نے اسے سہارا دیتے ہوئے کہا۔۔۔
بابا! میں تمہارے دکھ کو جانتا ہوں، سب لوگ تمہارے دکھ سے واقف ہیں۔ موت سے پہلے غم سے نجات ممکن نہیں۔۔۔ اسے بہرحال سہنا ہی ہوگا۔
صدرمملکت، وزیراعظم، منتخب عوامی نمائندگان اور سرکاری اداروں نے اس سانحہ پر ہمدردانہ بیانات جاری کیے۔ اور امدادی رقوم کا اعلان کیا۔ پاکستان ریلوے کے جنرل منیجر کو واقعہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے معطل کردیا گیا۔ یہ ایک ایسا عظیم اور ناقابل تلافی نقصان تھاجسے تنہا، بے گناہ اور معصوم لوگوں کو ہی برداشت کرنا تھا۔ میں یہ سوچ کر اچانک مڑا اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہیلی کاپٹر کی طرف چل دیا۔ ہم نے اپنی حفاظتی پٹیاں باندھ لیں اور جہاز کی اٹھان کا انتظار کرنے لگے۔ میں ان تمام لوگوں کی طرح اپنے گھر کی طرف محوپرواز تھا جو حادثے والے روز میرے شریک کار تھے۔۔ میرے لئے مشکل تھا کہ نظروں سے اوجھل ہونے والے پیارے نواسے کی جدائی کا دکھ برداشت کرلوں۔ میں نے خود پر جبر کرکے اپنی ماں کی موت کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بلال کی موت نے ان تمام دکھوں کو یکجا کر دیا جن کا اب مجھے سامنا تھا، میری آنکھوں میں آنسو نہیں تھے، اندر ہی اندر میں ابلتے آنسوؤں کو پی رہا تھا۔
ہسپتال میں دو ماہ کے اذیت ناک قیام کے آخری دنوں میں بلال نے بہتر ہونا شروع کردیا تھا۔ اس کی ٹانگوں اور سینے پر توانا جلد چڑھنے لگی تھی لیکن اس کا پیٹ اور ران کا درمیانی حصہ ابھی کچا تھا۔ بلال نے سب کو اپنی طرف متوجہ کررکھا تھا۔ کھانے پینے کے معاملے میں وہ بہت پرجوش تھا۔ اس نے اپنی بیماری کے دوران کبھی یہ تاثر نہیں دیا کہ اسے بھوک نہیں لگتی۔ منگواتا سب کچھ تھا۔۔۔ کھاتا کچھ نہیں تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ میری عدم موجودگی میں مجھے بہت یاد کرتا تھا لیکن میری طویل غیرحاضری کا شکوہ کبھی بھی نہیں کیا۔
میری مصروفیات کو دیکھتے ہوئے وہ سوچتا ہوگا۔۔۔۔
”نانا ان لوگوں کی دیکھ بھال کررہے ہونگے۔۔۔ اور اب وہ سڑک پر کھڑے ہوکر امدادی کاموں کے لئے لوگوں سے خیرات مانگ رہے ہونگے“۔
جب کبھی کوئی اسے پیسے دیتا تو وہ بڑی بے تابی اور شوق کے ساتھ گنا کرتا تھا میں جب اسے کچھ روپے دیتا تو سمجھاتا ”بیٹا! یہ پیسے ہمارے نہیں ہیں بلکہ غریبوں کو دینے ہیں“۔ یہ سن کر وہ کسی بھکاری کی مدد کے لئے بھاگ کھڑا ہوتا۔ حاجت مندوں کی دکھ بھری بات سنتا اور سب کچھ اسے دے کر پھر میرے پاس اور پیسے لینے کے لئے آ دھمکتا۔ میں پوچھتا ”بلال بیٹے! کیا تم نے مانگنے والے فقیر کی کہانی سن کر اسے سچ جان لیا تھا؟“
بلال جواب دیتا
”نانا! ابھی تو اس غریب کو اور بھی پیسوں کی ضرورت ہے“۔میں وقت نکال کر ہسپتال میں اسے ملنے جاتا اور جب جدا ہونے کا وقت آتا تووہ مضبوطی سے میرا ہاتھ تھام لیتا تھا۔ اس وقت اپنے جذبات پر قابو پانے میں مجھے بڑی مشکل پیش آتی۔ میں کبھی اپنے آپ کو اس کی چارپائی کے قریب لے جاتا اور پھر انہی قدموں سے گھبرا کر واپس بھی آجاتا۔۔۔ میں اسے پیار کرنا اور زندہ رہنے کا حوصلہ دینا چاہتا تھا۔ اسے اپنے بازوں میں لینے کے لئے ہر وقت بے تاب رہتا تھا۔ نظروں کے سامنے رکھنا چاہتا، لیکن مجھے یقین ہوچلا تھا کہ وہ ایک معصوم چراغ، تند وتیزآندھی کے سامنے اکیلا ہے، یہ چراغ کسی بھی وقت بجھ سکتا ہے۔ یہ سوچ کر میں بے بسی کے عالم میں دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا لیتا۔
ایک دن جب میں ہسپتال میں بلال کے بستر کے قریب کھڑا واپسی کے ارادے سے اسے الوداع کہہ رہا تھا تو اچانک بلال کی ددرناک چیخوں نے میرے قدم روک لئیے۔
”نرمل نے مجھے جلا دیا۔۔۔وہ مجھے مسلسل جلاتی رہی“۔
میں نے اسے تسلی دی، حتیٰ کہ کبرٰی نے بھی کہا
”خدا اسے معاف کرے، وہ ذہنی مریضہ ہے تم بھی اسے معاف کردو“۔
نرمل ایک پریشان حال جوان عورت تھی جسے ہم نے ایدھی ہوم میں بحالی کے نظرئیے سے کام کاج پر لگا رکھا تھا۔ کبرٰی نے کئی مرتبہ بلقیس سے ذکرکیا ”نرمل سست اور کام چور ہے وہ میلے، غلیظ کپڑے چارپائی کے نیچے چھپادیتی ہے اور جو کام اسے سونپا جاتا ہے اسے جان بوجھ کر ٹال دیتی ہے، وہ ہر وقت لگائی بجھائی اور سازشوں میں مصروف رہتی ہے“ نرمل ادارے کے انتظامی
امور میں خلل ڈالتی ہے اور ادارے میں نظم وضبط کے حوالے سے اٹھائے جانے والے ہر قدم پر اعتراض کرتی ہے۔
عید کی صبح نرمل نے بلال کو نہلانے کی پیشکش ی۔ وہ اسے غسل خانے میں لے گئی اور دروازہ بند کرکے اچانک اس پرگرم پانی انڈیلدیا۔ بلال نے اس آفت ناگہانی سے بچ کر نکلنا چاہا لیکن نرمل نے ابلتا پانی اس پر پھینک دیا۔ بلال کی آہ وبکا کے باوجود نرمل مسلسل کھولتا پانی اس کے بدن پر انڈیلتی رہی۔ اس سے پہلے کہ کبرٰی بلال کی دلدوز چیخیں سن کر کوئی مداوا کرتی، نرمل اپنا کام کرچکی تھی، جب نرمل سے اس حرکت کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ ”مجھے نہیں معلوم تھا کہ پانی اس قدر گرم ہے“۔ میں نے نرمل کی اس احمقانہ وضاحت یا اس کی نیت کے فتور کو نہ بھانپ شکا۔۔ اور چار وناچار نرمل کو ایک وحشت ذدہ مریضہ جان کر ایدھی کے بفرزون سنٹر میں بغرض علاج بھیج دیا۔
بلقیس اپنے گھر میں تھی جب اسے بلال کے بارے میں اطلاع ملی۔ اس نے ہسپتال جا کر دیکھا کہ بلال ایک ایسے کمرے میں تھا جس کے پردے گرا دئیے گئے تھے اور جسے عام داخلے کے لئے بند کردیا گیا تھا۔ کبرٰی یہ دیکھ کر نیم پاگل ہوگئی کہ ڈاکٹر، بلال کے ڈوبے ہوئے دلکو دوبارہ متحرک کرنے کے لئے پمپ کررہے تھے۔ وہ اگرچہ نڈھال تھی لیکن پھر بھی اس نے بلال کی زندگی کے لئے دعا جاری رکھی۔
بلال چاربرس کا تھا کہ زندگی اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔
گھوٹکی سے کراچی پہنچتے ہی میں نے اپنا تھیلا سنبھالا اور خاموش ہم سفر ساتھیوں سے جدا کو کر ائیرپورٹ سے سیدھا قبرستان پہنچا جہاں بلال۔۔ میرا مرحوم نواسہ اب ایک ایسے مقام پر تھا جو میری پہنچ سے باہر تھا۔ میں مٹی کے چھوٹے سے ڈھیر کو دیکھ کر واپس پلٹا اور اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے محسوس کیا کہ آخرکار یہ صبرآزما دور ختم ہوا۔۔ بلال بھی اذیت سے نجات پاچکا تھا۔ اب وہ آذاد تھا۔۔ وہاں جہاں،شکوے شکائیت کا کوئی اختیار نہیں۔
میں اور بلقیس غم سے نڈھال، چپ چاپ، گھر میں ایک دوسرے سے الگ تھلگ بیٹھے تھے۔ لوگ تعزیت کے بعد اپنے اپنے گھروں کو چل دئیے۔ ہم اکیلے رہ گئے اور فرط غم سے بلال کے چھوڑے ہوئے کپڑوں میں منہ چھپا کر بے تحاشا روتے
رہے۔ بلال کے کھلونوں کو سینے سے لگایا، پیار کیا اور اس کے چھوٹے چھوٹے بوٹ دیکھ ہماری فریادیں نکل گئیں۔ ہمیں ایسے لگا کہ جیسے بلال ابھی آئے گا اور انہیں پہن کر چلنا شروع کردے گا۔
اسی دوران کبرٰی کمرے میں آئی وہ غم سے نڈھال تھی۔۔۔ میں اسے بازوؤں میں لینے کے اٹھا۔۔ اس کی حالت، انتہائی مایوس کن تھی۔ اس مشن کی خاطر آج نواسہ قربان کرچکا تھا۔ بلقیس کئی دنوں تک اس کے غم میں رو سکتی تھی لیکن میں نے اسے سمجھایا کہ بلال کے غم کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے۔ یہ ایسی یاد نہیں جسے ہم دونوں مل کر برقرار رکھ سکیں۔ اسے یاد رکھنے کا یہی طریقہ ہے کہ ہم اس غم کو تمام دکھی اور محروم بچوں کے غم میں شامل کردیں۔
بلقیس جانتی تھی کہ ہم بلال کا ذکر دوبارہ نہ کرسکیں گے لیکن دل نے ذہن کو کبھی حاوی نہیں ہونے دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں اگر چہ اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی لیکن کئی دنوں، ہفتوں اور مہینوں تک اس کے خیالوں نے دن رات مجھے گھیرے رکھا۔ جب بھی فراغت کا کوئی لمحہ میسرآتا، میں اپنے میٹھادر دفتر کے باہر چوراہے کے قریب، سبز میناروں والی مسجد کے بالمقابل ایک بینچ پر بیٹھ جاتا جہاں بازار کے شوروغل میں ہر تنہا آواز دب جاتی۔ میں چاروں اطراف گلیوں میں لوگوں کی پرہجوم آمدورفت دیکھتا۔ اچانک ٹریفک کے بہاؤ میں سے نکلتا ہوا کوئی شخص مجھ سے علیک سلیک کرنے آجاتا۔ لیکن ان تمام مناظر سے دور کہیں اپنے نواسے
بلال کی یادوں میں گم سم رہتا۔۔۔۔
بلقیس نے بلال کی تصویر کو میری میز کے شیشے تلے سجا دیا تھا۔ میں بج بھی کبھی پریشان ہوا یا بخار میں مبتلا۔۔۔ اس نے میرے خوابوں کے دریچوں سے مجھے جھانک کر ضرور دیکھا جہاں اس کے معصوم اور بھولے بھالے سوالات اور بڑے بڑے خیالات مجھے اپنے بچپنے کے اس دور کی جانب کھینچ لے جاتے جب میں سوچتا تھا کہ میں بڑا ہو کر کیا بنوں گا؟ بلال بھی یہی کچھ سوچتا تھا۔۔۔ وبھی متجسس اور کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتا تھا۔ بلال کے چھوڑے ہوئے ننھے منے بوٹ، مجھے بانٹوا میں اپنے بچپن کی یاد دلاتے تھے لیکن زندگی نے اسے مہلت ہی نہ دی۔
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP