آج کل مختلف اداروں کے شش ماہی، ایک سالہ اور دوسالہ فہم دین کورس سامنے آرہے ہیں، ہمارے رائے میں حصول علم کا یہ بہت اہم اور احسن طریقہ ہے، تفصیلی دینی تعلیم تو جیسا کہ پہلے بھی ایک عرض کیا تھا، فرض کفایہ ہے، لیکن ہر ہر مسلمان کو حلال، حرام اور جائز وناجائز کا علم ہوجائے، ان کی اپنی اور اپنے اہلخانہ کی زندگی دین پر آجائے، اس کے لئے ضروری بنیادی علم ہر مسلمان کی ضرورت اور فرض عین ہے۔ اس طرف توجہ دینے کی نسبتاََ زیادہ ضرورت تھی، جو الحمداللہ اب پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔ کچھ ادارے ماشاء اللہ ایسا نظام الاوقات اور حیرت انگیز مختصر مگر جامع نصاب لے کر آئے ہیں کہ دنیا کہ مصروف ترین مسلمان کے لئے بھی اب گویا کوئی عذر کی گنجائش نہیں رہی، روازنہ شام میں ایک گھنٹے کا کورس بھی ہے، ہفتے میں صرف دو چھٹی والے دن کا کورس بھی ہے اور آن لائن کورس بھی ہے۔ جس میں آپ کو سہولت ہو، داخلہ لیجئے اور اللہ رب العزت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منشاء جان لیجئے۔
بچوں کا اسلام چونکہ بچوں کے آخری اور تیسرے گروپ کے بچوں کا رسالہ ہے، یعنی کہ تیرہ سے انیس سال تک کے نوعمروں کا (انگریزی میں جس عمر کو ٹین ایج کہتے ہیں)، شرعی نقطہ نظر سے تو خیر اس عمر کے بچے ”بچے“ ہوتے بھی نہیں ہیں۔ انہیں نوبالغ اور نوجوان کہنا چاہئے تو گویا بچوں کا اسلام نوجوانوں کا رسالہ ہوا، جسے ہمارے بزرگ بھی الحمد اللہ یکساں دلچسپی اور محبوبیت سے پڑھتے ہیں، تو آج دل چاہا کہ اپنے نو عمر قارئین کو جو اعلی عصری تعلیم کے حصول کے لئے اپنے نازک پرتول رہے ہیں۔ اُن کے سامنے یہ بات رکھیں کہ اپنے پسندیدہ شعبے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ابھی یا والدین کے مشورے سے جیسے ہی موقع ملے، مختصر دورانیے کا فہم دین کورس بھی آپ کو ضرور بالضرور کرنا ہے، اور یہ مختصر دورانیے کی دینی تعلیم کا تصور ہمارے ہاں بالکل بھی نیا نہیں ہے۔ مسلمانوں کے نظام تعلیم میں یہ عمل قدیم دور ہی سے چلا آرہا ہے۔
دورعروج میں مسلمانوں کی تعلیم کا نظام ریاستی عمل دخل سے تقریباََ آذاد ہی تھا اور ہر عمر اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کسی نہ کسی طرح سیکھنے، سکھانے اور پڑھنے پڑھانے کے عمل سے جڑے رہتے تھے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں نے تقریباََ ہر دور میں خود کو تعلیم سے وابستہ رکھا۔ ریاستی سطح پر تعلیم کا انتظام دورنبویﷺ ہی میں شروع کیا جاچکا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیہاتیوں کو قرآن کریم کی جبری تعلیم دینے کا نظام قائم کیا۔ بچوں کو کتابت اور شہ سواری سکھانے کی ہدایات دیں اور مسجد نبوی ﷺ میں قرآن کریم کی تعلیم کا باقاعدہ انتظام کیا۔ جبکہ مختلف جگہوں پر مکاتب قائم کرکے معلمین کی تنخواہیں مقرر فرمائیں۔ خود مسلمانوں میں بھی دینی علوم پڑھنے، پڑھانے کا ایسا ذوق تھا کہ وہ سپاہی ہوتے یا تجارت سے جڑے ہوتے، مسلسل علماء کرام سے تعلق رکھتے اور ضروری بنیادی مسائل سے بخوبی آگاہ رہتے۔ اس لیے دوستو! آج اور ابھی یہ عزم کیجئے کہ ہم چاہے کمپیوٹر سائنس میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، ہم میڈیکل یا انجینرنگ کی تعلیم حاصل کررہے ہوں یا ہم ابوجان کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے کے لئے کاروبار کے گر سیکھ رہے ہوں، دینیات کا اتنا علم ہمیں ضرور حاصل کرنا ہے جس سے ہماری اپنی اور اہل خانہ کی زندگی دین پر آجائے، اور ہم دنیا میں ہی نہیں، آخرت کی ہمیشہ کی زندگی میں بھی سرخرو ہوجائیں۔
شمارہ نمبر نو ستر، بچوں کا اسلام میں شائع ہوئی
فہم دین کورس
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP