ڈاکٹر امیرعلی ماجد
فیصل آباد کے ایک درزی کے نابینا بیٹے کی کہانی جو لندن میں مشیر اور جج کے عہدے تک جا پہنچے
ہم اگر صرف ایک دن آنکھیں بند کرکے گزارنے کا فیصلہ کریں یا اپنے روزمرہ کام سرانجام دے کر دیکھیں تو ہمیں سمجھ آئے کہ یہ آنکھیں کتنی بڑی نعمت ہیں۔ تب شاید ہم صیحح معنوں میں ان مشکلات اور پریشانیوں کا اندازہ لگا سکیں جو نابینا افراد روزانہ سہتے ہیں۔ ان کی ہمت اور کامیابیوں کودیکھ کر واضح محسوس ہوتا ہے کہ آنکھوں کے نور سے محروم انسانوں کو اللہ تعالی ے اندر کی نگاہوں سے سرفراز فرمایا ہوا ہے۔ پاکستان کے ڈاکٹر امیرعلی ماجد ایسے ہی مثالی انسان ہیں جنہوں نے اپنی انتھک کوششوں اور محنت کے ساتھ ساتھ قدرت کی عطاء کردہ صلاحیتوں سے ایک مقام حاصل کیا ہے۔ وہ سیکنڈ ائیر میں زیرتعلیم تھے کہ ان کی بینائی تیزی سے کم ہونا شروع ہوگئی، ان کے والد صاحب ضلع گوجرہ فیصل آباد میں درزی کا کام کرتے تھے وہ اپنے نورنظر کی آنکھوں کے علاج کے لئے پاکستان بھر کے ڈاکٹروں اور ماہرین امراض چشم کے پاس گئے اور بیرون ملک علاج کے لئے بھی گئے لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔
جب انہیں ہر طرف سے مایوس کن جواب ملاکہ وہ کبھی دیکھ نہیں پائیں گے تو انہوں نے اسے دل سے تسلیم کرلیا اور دوبارہ پڑھائی شروع کردی۔ بینائی کی نعمت سے محرومی کے بعد انہوں نے مزید محنت سے کام لینا شروع کردیا اور FA,BAکے امتحانات میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوگئے۔ وہ 1947میں دوبارہ انگلستان گئے اور وہاں سے ایل ایل بی آنرز کی ڈگری لے کر وطن واپس آگئے۔ لیکن ڈاکٹر امیرعلی ماجد کی علم کی پیاس ابھی باقی تھی لہذا وہ دوبارہ انگلینڈ تشریف لے گئے اور انہوں نے مشہور برطانوی درسگاہ لنکن ان سے پہلے بار ایٹ لاء اور ایل ایل ایم کیا۔ ڈاکٹر امیرعلی ماجد نے تعلیم کی راہ میں بینائی کو رکاوٹ نہیں بننے دیا انہوں نے نہ صرف قانون میں متعدد ڈپلومے حاصل کئے بلکہ کینیڈا سے سول لاء کے موضوع پر تحقیق کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آج کل وہ برطانیہ میں نہ صرف وزارت بہبود معذوران میں مشیر ہیں بلکہ اس کے ساتھ وہ وہاں امیگریشن جج بھی ہیں۔ برطانیہ کی تاریخ پر یہ بات ریکارڈ پر ہے ہ ان کی کارکردگی بینا جج سے بہت بہتر ہے۔ ڈاکٹر امیر علی ماجد نے مختلف کتابیں تصنیف کی ہیں یہ ساری کامیابیاں ایک محنتی انسان ہی حاصل کرسکتا ہے۔
آپ ان کی محرومی اور کامیابہ کا موازانہ کریں کہاں ایک فیصل آباد کے درزی کا نابینا لڑکا اور کہان کینڈا کی پی ایچ ڈی، انگلینڈ میں جاکر اپنے جیسے لوگوں کا مشیر مقرر ہونا اور جج کے فرائض منصبی۔ یادرکھنے کی بات ہے اگر آپ کے جذبے زندہ ہیں اگر آپ نے کچھ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ آپ مستقل مزاج بن سکتے ہیں تو دینا کی ہر کامیابی آپ کے قدموں میں ہے۔ انسان جس مٹی میں پیدا ہوا ہوتا ہے جس مٹی میں اس نے اپنا بچپن گزارا ہوتا ہے وہ اسے کہیں بھی جاکر نہیں بھولتی۔ وہ اپنی کامیابی کو اپنی دن رات کی محنت کو اپنی مٹی کے لوگوں پر خرچ کرکے سب سے ذیادہ سکون محسوس کرتا ہے۔ ڈاکٹر امیرعلی کا تعلق گوجرہ فیصل آباد سے ہے جہاں آنکھوں کے امراض دیگر علاقوں کی نسبت بہت ذیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے آبائی علاقے میں امراض چشم کے علاج کے لئے ایک ہسپتال تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہاں چھ ایکڑ اراضی بھی خرید چکے ہیں۔ تعمیری اخراجات کی مد میں بیشتر رقم و اپنی جیب سے خرچ کرنے کا عزم رکھتے ہیں جبکہ لندن میں مقیم ان کے دوست بھی اس سلسلے میں ان کی بھرپور معاونت کررہے ہیں۔
ڈاکٹرامیر علی کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا یہی ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقے گوجرہ کے ہر مریض کو شفایابی سے ہمکنارکرائیں جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے سولہ رنگین بہاریں اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں کامیابی درکامیابی کی عظیم مثالیں موجود ہیں اگر نعمت آپ کے پاس ہوہی نہ تو آپ اس کے بغیر آرام سے گزارہ کرلیتے ہیں لیکن اگر کوئی بہت بڑی نعمت عین جوانی میں چھن جائے تواکثر لوگ ٹوٹ جاتے ہیں وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی مایوسی پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں لیکن ڈاکٹر امیر علی صاحب نے نہ صرف اس محرومی کو قبول کیا بلکہ اسے کسی بھی طرح سے اپنے راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اور وہ اعزاز حاصل کیئے جن کے خواب آنکھوں والے دیکھتے ہیں
زندگی میں جس تناسب سے مسائل ہوتے ہیں اُسی تناسب سے انعام بھی ہوتے ہیں
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP