اے پی ایس پشاور سکول میں قتل عام تحریر نیازعلی خان جدون مرکزی جنرل سیکرٹری پاک ہزارہ گروپ متحدہ عرب امارات - Haripur Today

Breaking

Wednesday, 16 December 2020

اے پی ایس پشاور سکول میں قتل عام تحریر نیازعلی خان جدون مرکزی جنرل سیکرٹری پاک ہزارہ گروپ متحدہ عرب امارات

اے پی ایس پشاور سکول میں قتل عام

 


اے پی ایس پشاور سکول میں قتل عام        

تحریر نیازعلی خان جدون  مرکزی جنرل سیکرٹری پاک ہزارہ گروپ متحدہ عرب امارات

16 دسمبر 2014 کو تحریک طالبان پاکستان کے سات دہشت گرد ایف سی(FC ) کی یونیفارم میں ملبوس ہو کر آرمی پبلک سکول پشاور میں پچھلے گیٹ سے داخل ہوگئے اور سکول ہال میں جاکر اندھا دھند فائرنگ کی اس کے بعد انہوں نے کلاس روموں کا رخ اختیار کیا اور وہاں پر موجود بچوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا اس کے ساتھ ساتھ آرمی پبلک سکول کی پرنسپل صاحبہ کو آگ لگا کرشہید کردیا۔ اس حملہ میں 9 اساتذہ، 03 فوجی جوانوں کو ملاکر144 شہید اور113 سے زائد زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والے 132 طالب علموں کی عمریں 9سال سے لے کر18 سال کے درمیان تھیں۔ پاکستان آرمی نے 950 بچوں واساتذہ کو اس موقع پر دہشتگردوں  کے شکنجےسے باحفاظت نکالا۔ ایک دہشتگرد نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ 6 دہشتگرد اس موقع پر پاکستان آرمی نے مردار کردئیے۔ 2014 میں پشاور سکول پر حملہ پاکستانی تاریخ کا مہلک ترین دہشتگردانہ حملہ تھا۔ جس نے 2007 کراچی بم دھماکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ مختلف خبررساں اداروں اور مبصرین کے مطابق عسکریت پسندوں کی یہ کاروائی2004 میں روس میں ہونے والے بیسلان سکول حملے سے ملتی جلتی ہے۔ جون 2014 کے بعد سے شمالی وزیرسان میں شدت پسندوں کے خلاف پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے مشترکہ کاروائی کا آغاز کیا گیا۔ یہ مسلسل جاری وزیرستان آپریشن کا حصہ ہے جس کے تحت اب تک 1200 سے زائد دہشت کردار اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں اور 90 فیصد وزیرستان شدت پسندوں سے پاک کیا جاچکا ہے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رکن نے کہا ہے کہ یہ آپریشن ضرب عضب اور خیبرون کا ردعمل ہے ۔ آرمی پبلک سکول وارسک روڈ پر کنٹونمنٹ کے علاقے میں واقع ہے اس کی پاکستان بھر میں 146شاخیں ہیں۔

آرمی پبلک سکول وارسک  پشاور پر حملہ 16 دسمبر کو دن 10 بجے ہوا جب 7 مسلح اراد پاکستانی فرنٹئیر کور کی وردیوں میں ملبوس ہو کر تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسندوں نے سکول سے ملحقہ قبرستان کی چاردیواری کو توڑ کر اندر گھس گئے یہ دہشت گرد سوزوکی بولان ST41 جس میں وہ سفر کرکے آئے تھے اُس کو آگ لگا دی، دہشت گردی خودکار ہتھیاروں سے لیس تھے وہ سیدھا سکول کے ہال میں آئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ مذکورہ ہال میں اس وقت کلاس نہم اور کلاس دہم کے بچوں کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جارہی تھی۔ اس وقت کے افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ کے مطابق مذکورہ دہشت گرد کسی کو یرغمال بنانے کے لیئے نہیں آئے تھے بلکہ وہ سکول کے بچوں کو قتل کرنے کے سلسلے میں ہی آئے تھے۔  اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ تنظیم کے مرکزی ترجمان محمد عمر خراسانی نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے 6 حملہ آور سکول میں داخل ہوئے ہیں اس کا مزید کہنا  تھا کہ یہ کاروائی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضرب عضب اور آپریشن خیبر ون  جوکہ خیبر ایجنسی میں جاری ہے اُس کا ردعمل تھا۔ پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے دہشت گردوں کی شناخت کے لئے تحقیقات کے مطابق تمام دہشتگرد غیرملکی تھے جن میں سے چھ دہشتگردوں کی شناخت کو ظاہر کیا گیا۔(1) ابوشامل یا عبدالرحمن ایک چیچین جنگجو تھا جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس دہشتگرد گروہ کا سرغنہ تھا۔ (2) نعمان شاہ ہلمند ایک افغانی جو کہ صوبہ قندھار کا رہنے والا تھا اور امریکی حکومت نے اس پر پانچ لاکھ ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا۔ (3) وسیم عالم ہرات بھی افغانی تھا جو کہ افغانستان کے علاقہ ہرات کا رہنے والا تھا۔ (4) خطیب الزبیدی عربی بولنے والا تھا اور اس کا تعلق مصر سے بتایا جاتا ہے۔ ان دہشتگردوں کا ساتھی (5) محمد زاہدی مراکشی شہری تھا، (6) جبران السعیدی ایک عرب ملک کا باشندہ تھا جس کی شہریت نامعلوم تھی۔ اس کاروائی میں دہشتگردوں سے جو موبائل کا سم کارڈ برآمد ہوا وہ پنجاب کے نواحی علاقے حاصل پور کی ایک خاتون کے نام پر تھا۔

سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور پر ردعمل

یہ میرے  بچے ہیں اور یہ میرا نقصان ہوا ہے۔ میاں محمدنوازشریف وزیراعظم پاکستان

حکومت پاکستان نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا اور اس دوران تمام پاکستانی پرچم تین روز تک سرنگوں رہے۔ وزیراعظم پاکستان نے پاکستان میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کی پابندی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ پابندی صرف دہشتگری کے مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کے لئے ختم کی گئی تھی۔ صدرپاکستان ممنون حسین نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے بزدلانہ حملے قوم کے حوصلے اور عزم کو متزلزل نہیں کرسکتے ہیں۔ رہنما متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنما محمدطاہر القادری نے سانحے کی بھرپور مذمت کی۔ نوبل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بے حس حرکت پر رنجیدہ ہوں ہم نے اس سے پہلے پشاور میں خون سرد کرنے والا ایسا کوئی واقعہ نہیں دیکھا۔

اس حملے کا سب سے ذیادہ ردعمل پاکستان سے باہر بھارت میں دیکھا گیا، حملے کے فوری بعد بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی کے کہنے پر بھارت کے ہر سکول میں ان متوفی بچوں کے لئے دو منٹ کی خاموشی اور دعائیہ اجتماعات منعقد جس میں سبھی بچوں نے بلا تفریق مذہب کا حصہ بنا لیا۔ اور اپنی انسانیت دوستی کا ثبوت دیا۔ بھارت کے عوام نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ یہ بچے پاکستانی تھے یا پھر یہ کہ پاکستانیوں فوجیوں کے فرزندان تھے۔

 

APSپشاور کے شہید طلباء کے نام خوبصورت عکاسی۔۔۔ مزید پڑھیں

 

No comments:

Post a Comment

Thank you for contacting us, we will response ASAP

Pages