سوشلزم کیوں؟
تحریر: آئن سٹائن
کیا یہ اس شخص کے لیے سوشلزم کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہارکرنامعقول بات ہے جو معاشی اور سماجی مسائل کاماہر نہیں، ؟ میرے نزدیک اس کی وجوہات یہ ہیں۔
سب سے پہلے ہم سائنسی نقطہ نظر سے اس سوال پر غور کرتے ہیں۔ ممکن تھا کہ فلکیات اورمعاشیات کے طریق ہائے کارکے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا۔ دونوں علوم کے سائنس دان اپنے اپنے میدانوں میں عمومی قوانین دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان مظاہر کے درمیان تعلق کو قابل فہم اور ممکن بنایا جاسکے لیکن حقیقتاً ایسے طریق ہائے کار میں فرق لازمی ہے۔ معاشیات کے میدان میں عمومی قوانین کی دریافت ان حالات کی وجہ سے مشکل ہوئی جن کو علیحدہ کرکے [عدم ارتباط میں]جاننا مشکل ہے۔ مزید برآں یہ کہ انسانی تجربہ جو انسانی تاریخ کے مہذب دور سے ہی پروان چڑھا ہے ایسی وجوہات سے اجتماعی شکل اختیار کر سکا ہے جوکْلی طور پر معاشی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر تاریخ میں بہت سی ریاستیں اپنے وجود کے لئے فتوحات کی مرہون منت رہیں۔ فاتح ملک کے لوگوں نے معاشی اور قانونی طور اپنے آپ کو امیر طبقے کے طور پر مستحکم کیا۔ انہوں نے زمینی ملکیت کی اجارہ داری قائم کی اور پیشوائی نظام کے عہدوں کو خود اپنے افراد میں بانٹ لیا۔ دینی پیشواؤں نے تعلیم پراجارہ داری کی بنا ڈالی اور طبقاتی نظام کو مستقل ادارے کی شکل دے کر معاشر ے کی گروہ بندی کا نظام وضع کر کے ایسی اقدارکو جنم دیا جس سے لوگوں کے رویے لاشعوری طور پر اسی شکل میں ڈھل گئے۔
یہ تاریخی روایت کل تک یہی تھی لیکن اب ہم نے انسانی ترقی کے اس دور جسے Thorslein Veblenنے ’’غارت گردور‘‘ ‘‘the predatory phase’’ کہا تھا، پر قابو پالیا ہے؟ قابل مشاہدہ معاشی حقائق اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں اور یہاں تک کہ ایسے قوانین جو ہم ان سے اخذ کرتے ہیں، وہ دوسرے ادوار پر قابل اطلاق نہیں ہیں۔ چونکہ سوشلزم کا حقیقی مقصد انسانی ترقی کے ’’غارت گردور‘‘ کا جوا اتار پھینکنا اور اس کی دسترس سے باہر ترقی کرنا ہے، موجودہ دور میں معاشی سائنس مستقبل کی سوشلسٹ سوسائٹی پر روشنی ڈال سکتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ سوشلزم سماجی مقاصدکے حصول کے لئے ہے تاہم سائنس ایسے مقاصد کو جنم نہیں دیتی نہ ہی انہیں انسانوں کے ذہنوں میں ٹھونس سکتی ہے۔ یہ ان ذرائع کی تخلیق کر سکتی ہے جو ان مقاصد کے حصول کے لئے ضروری ہیں۔ یہ مقاصد ان شخصیات کے ذہن میں جنم لیتے ہیں جن کے بلند سماجی عزائم ہوتے ہیں۔ اگر یہ مقاصد ساکت و جامدنہ ہوں، بلکہ فعال اور موثر ہوں،تو انہیں وہ انسان اپناتے ہیں جو قدرے لا شعوری طور پر معاشرے کے سست ارتقا کا تعین کرتے ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر ہمیں محتاط رہنا چاہیے تاکہ ہم سائنس اور سائنسی طریقِ کار کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔ ہمیں یہ مفروضہ قائم نہیں کرنا چاہیے کہ صرف ماہر ین ہی یہ حق رکھتے ہیں کہ معاشرے کی تنظیم اور اس سے متعلقہ مسائل پر اظہار رائے کریں۔
جب کبھی ان گنت آوازیں پر زور دعویٰ کر رہی ہوں کہ اب انسانی معاشرہ نازک دور سے گزررہا ہے اور اس کااستحکام بری طرح پاش پاش ہواہو، تو یہ ایسی صورت حال کا خاصہ ہے کہ افراد ، چاہے وہ چھوٹے یا کسی بڑے گروہ سے تعلق رکھتے ہوں،اس گروہ سے یا تو لا تعلق ہو جاتے ہیں یا پھر اس کی مخالفت کرنے لگ پڑے ہیں۔اس کی وضاحت کے لیے میں ذاتی تجربہ بیان کرتاہوں۔ حال ہی میں میری ایک ذہین اور متمول شخص سے گفتگو ہوئی۔میرے خیال میں ایک اور جنگ کا خطرہ، انسانی موجودگی کو شدید طور پر ایک نئے خطرے میں مبتلا کر دے گا۔ میری رائے تھی کہ انفرادی ممالک سے بالا کوئی تنظیم ہی اس خطرے سے بچاؤ کے لیے تحفظ فراہم کرے گی۔ اس پر میرے ملاقاتی نے بہت آرام وسکون اور ٹھنڈے مزاج سے کہا ’’آپ کیوں نسلِ انسانی کی عدم موجودگی کی اتنی سخت مخالفت کرتے ہیں؟‘‘
مجھے یقین ہے کہ سابقہ مختصر صدی میں کسی نے اتنا گھمبیر بیان اتنی سادگی سے نہ دیا ہوگا۔ یہ ایک ایسے آدمی کا بیان ہے جو اپنے آپ میں توازن قائم کرنے کی کوشش میں ناکام ہو گیا اوراس سلسلے میں اسے کامیابی کی کوئی امید بھی نہیں۔ یہ اکلاپے اوردکھ بھری تنہائی کااظہار ہے جس سے بہت سارے لوگ ان دنوں گزررہے ہیں۔
ایسے سوالات اْٹھانا، آسان کام ہے لیکن قابل یقین مثال کے ہمراہ جواب دینا مشکل کام ہے۔ میں جتنی بہتر کوشش کر سکتا ہوں، کروں گا۔ اگرچہ میں حقیقت سے باخبر ہوں کہ ہمارے احساسات اور ہماری کوششیں اکثر متضاد اور مبہم ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ انہیں آسان اور سادہ طریقوں سے بیان بھی نہیں کیا جاسکتا۔
فردایک ہی وقت میں انفرادی اور سماجی وجودہے۔ اپنے انفرادی وجود کے ناطے وہ اپنے اور ان لوگوں کے تحفظ کی کوشش کرتا ہے جواس کے قریب رہتے ہیں اور اپنی خواہشات کو مطمئن کرنے اوراپنی باطنی قابلیتوں کو پروان چڑھانے کی کوششیں بھی کرتا ہے۔سماجی انسان ہونے کے طور پر وہ دوسروں سے اپنی پہچان اور اپنے ساتھ رہنے والے لوگوں کی محبت کو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ان کی خوشیوں میں شامل ہونے، ان کے دکھوں میں انہیں آرام پہنچانے اور زندگی کے حالات کوبہتر کرنے کی جستجو کرتاہے۔ان مختلف، اور بعض اوقات متحارب عوامل کی موجودگی ایک آدمی کے مخصوص کردار کومتعین کرتی ہے اور ان کا مخصوص اجماع ایک فرد کے باطنی توازن کی سطح اور معاشرے کی فلاح میں اس کے حصے کا تعین کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان دونوں عوامل کی باہمی طاقت، وراثتی طور پر متعین ہو۔ لیکن آخر کا ر شخصیت کی تشکیل میں فیصلہ کن عنصر وہ معاشرتی وجود ہیں جس میں اس کا ارتقا ہو تا ہے۔ اس میں معاشرے کی ساخت شامل ہے، جس میں وہ پرورش پاتا ہے،اس معاشرے کی روایات اور رویوں کی مخصوص نمونہ جات شامل ہیں۔ ایک فرد کے لیے ’’معاشرے‘‘ کے تجریدی تصور سے مرادایک فرد کے بالواسطہ اور بلاواسطہ تعلقات کا مجموعہ ہے، اس کے وہ تعلقات جواس کے ہم عصر اور ابتدائی نسلوں کے سارے لوگوں سے مربوط ہوتے ہیں۔ فرد بذات خود سوچنے، محسوس کرنے، کوشش کرنے اور کام کرنے کے قابل ہوتا ہے لیکن وہ معاشرے پر طبعی ذہانت اور جذباتی موجودگی پر اتنازیادہ انحصار کرتا ہے کہ اس کے بارے معاشرے کے ڈھانچے علاوہ جاننا ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہ معاشرہ ہی ہے جوآد می کو خوراک، کپڑے، گھر ،اوزار، زبان، خیال کی بنتریں اور خیال کا مافیہامہیا کرتا ہے۔ اس کی زندگی ماضی اور حال کے ان گنت لوگوں کی محنت اور اس کے ثمرات سے ممکن ہوئی جو معمولی سے لفط ’’معاشرے‘‘ میں پنہاں ہے۔
تحریر: آئن سٹائن
کیا یہ اس شخص کے لیے سوشلزم کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہارکرنامعقول بات ہے جو معاشی اور سماجی مسائل کاماہر نہیں، ؟ میرے نزدیک اس کی وجوہات یہ ہیں۔
سب سے پہلے ہم سائنسی نقطہ نظر سے اس سوال پر غور کرتے ہیں۔ ممکن تھا کہ فلکیات اورمعاشیات کے طریق ہائے کارکے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا۔ دونوں علوم کے سائنس دان اپنے اپنے میدانوں میں عمومی قوانین دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان مظاہر کے درمیان تعلق کو قابل فہم اور ممکن بنایا جاسکے لیکن حقیقتاً ایسے طریق ہائے کار میں فرق لازمی ہے۔ معاشیات کے میدان میں عمومی قوانین کی دریافت ان حالات کی وجہ سے مشکل ہوئی جن کو علیحدہ کرکے [عدم ارتباط میں]جاننا مشکل ہے۔ مزید برآں یہ کہ انسانی تجربہ جو انسانی تاریخ کے مہذب دور سے ہی پروان چڑھا ہے ایسی وجوہات سے اجتماعی شکل اختیار کر سکا ہے جوکْلی طور پر معاشی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر تاریخ میں بہت سی ریاستیں اپنے وجود کے لئے فتوحات کی مرہون منت رہیں۔ فاتح ملک کے لوگوں نے معاشی اور قانونی طور اپنے آپ کو امیر طبقے کے طور پر مستحکم کیا۔ انہوں نے زمینی ملکیت کی اجارہ داری قائم کی اور پیشوائی نظام کے عہدوں کو خود اپنے افراد میں بانٹ لیا۔ دینی پیشواؤں نے تعلیم پراجارہ داری کی بنا ڈالی اور طبقاتی نظام کو مستقل ادارے کی شکل دے کر معاشر ے کی گروہ بندی کا نظام وضع کر کے ایسی اقدارکو جنم دیا جس سے لوگوں کے رویے لاشعوری طور پر اسی شکل میں ڈھل گئے۔
یہ تاریخی روایت کل تک یہی تھی لیکن اب ہم نے انسانی ترقی کے اس دور جسے Thorslein Veblenنے ’’غارت گردور‘‘ ‘‘the predatory phase’’ کہا تھا، پر قابو پالیا ہے؟ قابل مشاہدہ معاشی حقائق اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں اور یہاں تک کہ ایسے قوانین جو ہم ان سے اخذ کرتے ہیں، وہ دوسرے ادوار پر قابل اطلاق نہیں ہیں۔ چونکہ سوشلزم کا حقیقی مقصد انسانی ترقی کے ’’غارت گردور‘‘ کا جوا اتار پھینکنا اور اس کی دسترس سے باہر ترقی کرنا ہے، موجودہ دور میں معاشی سائنس مستقبل کی سوشلسٹ سوسائٹی پر روشنی ڈال سکتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ سوشلزم سماجی مقاصدکے حصول کے لئے ہے تاہم سائنس ایسے مقاصد کو جنم نہیں دیتی نہ ہی انہیں انسانوں کے ذہنوں میں ٹھونس سکتی ہے۔ یہ ان ذرائع کی تخلیق کر سکتی ہے جو ان مقاصد کے حصول کے لئے ضروری ہیں۔ یہ مقاصد ان شخصیات کے ذہن میں جنم لیتے ہیں جن کے بلند سماجی عزائم ہوتے ہیں۔ اگر یہ مقاصد ساکت و جامدنہ ہوں، بلکہ فعال اور موثر ہوں،تو انہیں وہ انسان اپناتے ہیں جو قدرے لا شعوری طور پر معاشرے کے سست ارتقا کا تعین کرتے ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر ہمیں محتاط رہنا چاہیے تاکہ ہم سائنس اور سائنسی طریقِ کار کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔ ہمیں یہ مفروضہ قائم نہیں کرنا چاہیے کہ صرف ماہر ین ہی یہ حق رکھتے ہیں کہ معاشرے کی تنظیم اور اس سے متعلقہ مسائل پر اظہار رائے کریں۔
جب کبھی ان گنت آوازیں پر زور دعویٰ کر رہی ہوں کہ اب انسانی معاشرہ نازک دور سے گزررہا ہے اور اس کااستحکام بری طرح پاش پاش ہواہو، تو یہ ایسی صورت حال کا خاصہ ہے کہ افراد ، چاہے وہ چھوٹے یا کسی بڑے گروہ سے تعلق رکھتے ہوں،اس گروہ سے یا تو لا تعلق ہو جاتے ہیں یا پھر اس کی مخالفت کرنے لگ پڑے ہیں۔اس کی وضاحت کے لیے میں ذاتی تجربہ بیان کرتاہوں۔ حال ہی میں میری ایک ذہین اور متمول شخص سے گفتگو ہوئی۔میرے خیال میں ایک اور جنگ کا خطرہ، انسانی موجودگی کو شدید طور پر ایک نئے خطرے میں مبتلا کر دے گا۔ میری رائے تھی کہ انفرادی ممالک سے بالا کوئی تنظیم ہی اس خطرے سے بچاؤ کے لیے تحفظ فراہم کرے گی۔ اس پر میرے ملاقاتی نے بہت آرام وسکون اور ٹھنڈے مزاج سے کہا ’’آپ کیوں نسلِ انسانی کی عدم موجودگی کی اتنی سخت مخالفت کرتے ہیں؟‘‘
مجھے یقین ہے کہ سابقہ مختصر صدی میں کسی نے اتنا گھمبیر بیان اتنی سادگی سے نہ دیا ہوگا۔ یہ ایک ایسے آدمی کا بیان ہے جو اپنے آپ میں توازن قائم کرنے کی کوشش میں ناکام ہو گیا اوراس سلسلے میں اسے کامیابی کی کوئی امید بھی نہیں۔ یہ اکلاپے اوردکھ بھری تنہائی کااظہار ہے جس سے بہت سارے لوگ ان دنوں گزررہے ہیں۔
ایسے سوالات اْٹھانا، آسان کام ہے لیکن قابل یقین مثال کے ہمراہ جواب دینا مشکل کام ہے۔ میں جتنی بہتر کوشش کر سکتا ہوں، کروں گا۔ اگرچہ میں حقیقت سے باخبر ہوں کہ ہمارے احساسات اور ہماری کوششیں اکثر متضاد اور مبہم ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ انہیں آسان اور سادہ طریقوں سے بیان بھی نہیں کیا جاسکتا۔
فردایک ہی وقت میں انفرادی اور سماجی وجودہے۔ اپنے انفرادی وجود کے ناطے وہ اپنے اور ان لوگوں کے تحفظ کی کوشش کرتا ہے جواس کے قریب رہتے ہیں اور اپنی خواہشات کو مطمئن کرنے اوراپنی باطنی قابلیتوں کو پروان چڑھانے کی کوششیں بھی کرتا ہے۔سماجی انسان ہونے کے طور پر وہ دوسروں سے اپنی پہچان اور اپنے ساتھ رہنے والے لوگوں کی محبت کو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ان کی خوشیوں میں شامل ہونے، ان کے دکھوں میں انہیں آرام پہنچانے اور زندگی کے حالات کوبہتر کرنے کی جستجو کرتاہے۔ان مختلف، اور بعض اوقات متحارب عوامل کی موجودگی ایک آدمی کے مخصوص کردار کومتعین کرتی ہے اور ان کا مخصوص اجماع ایک فرد کے باطنی توازن کی سطح اور معاشرے کی فلاح میں اس کے حصے کا تعین کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان دونوں عوامل کی باہمی طاقت، وراثتی طور پر متعین ہو۔ لیکن آخر کا ر شخصیت کی تشکیل میں فیصلہ کن عنصر وہ معاشرتی وجود ہیں جس میں اس کا ارتقا ہو تا ہے۔ اس میں معاشرے کی ساخت شامل ہے، جس میں وہ پرورش پاتا ہے،اس معاشرے کی روایات اور رویوں کی مخصوص نمونہ جات شامل ہیں۔ ایک فرد کے لیے ’’معاشرے‘‘ کے تجریدی تصور سے مرادایک فرد کے بالواسطہ اور بلاواسطہ تعلقات کا مجموعہ ہے، اس کے وہ تعلقات جواس کے ہم عصر اور ابتدائی نسلوں کے سارے لوگوں سے مربوط ہوتے ہیں۔ فرد بذات خود سوچنے، محسوس کرنے، کوشش کرنے اور کام کرنے کے قابل ہوتا ہے لیکن وہ معاشرے پر طبعی ذہانت اور جذباتی موجودگی پر اتنازیادہ انحصار کرتا ہے کہ اس کے بارے معاشرے کے ڈھانچے علاوہ جاننا ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہ معاشرہ ہی ہے جوآد می کو خوراک، کپڑے، گھر ،اوزار، زبان، خیال کی بنتریں اور خیال کا مافیہامہیا کرتا ہے۔ اس کی زندگی ماضی اور حال کے ان گنت لوگوں کی محنت اور اس کے ثمرات سے ممکن ہوئی جو معمولی سے لفط ’’معاشرے‘‘ میں پنہاں ہے۔
Why socialism
Writing: Ain Stein
Is this a person who expresses his
views on the subject of socialism that is not economic and social issues? Here
are the reasons for me.
First of all we consider this
question from the scientific perspective. It was possible that there would be
no difference between astrology and practicing methods. Sciences of both
sciences try to discover general laws in their own fields so that relationships
can be made comprehensible and possible between these phenomena, but in fact,
such a difference is essential in such procedures. General laws discovered in
the field of economics have been difficult due to situations which are difficult
to know [inactivity]. Furthermore, human experience, which has been proven from
the decent period of human history, has been able to collectively form factors
which are not economically economical. For example, in many countries, many
states remain silent for their existence. The winners of the country have
flourished themselves economically and legally as a rich class. He established
a monopoly of land ownership and divided positions of the occupation into their
own people. Religious predecessors taught education and created class system by
forming a permanent organization by organizing society's social system and
giving birth to such values, which led to the behavior of people in a formatted
form.
This historical tradition was the
same till tomorrow but now we have control over this period of human
development, which was called Thorslein Veblen called "the predatory
phase". Observing economic facts are related to this period and even the
laws we take to them are not applicable to other periods. Since the real
purpose of socialism is to throw away the gambling rotation of human
development and develop it beyond its hands, economic science in the present
era can highlight the future of socialist society.
Secondly, socialism is for the
purpose of social purposes, but science does not give birth to such goals nor
can they be able to stay in human minds. This can create sources that are
necessary to achieve these objectives. These goals lead to the minds of the
person who have high social intentions. If these goals are sacred and purple,
but rather active and efficient, they adopt humans that determine the slow
development of a very conscious society.
For those reasons, we should be
careful that we do not give much importance to science and scientific procedures.
We should not establish this hypothesis that only the specialists have the
right to comment on society's organization and related issues.
Whenever there is a loud claim to the
loud voices that human society is now passing through a critical period and its
task is to destroy the evil, then it is a situation that individuals, whether
they belong to a small or a large group Yes, this group either seems to be lazy
or opposed. I describe personal experience for this explanation. I recently
talked to a intelligent and humble person. I think the danger of another war,
will seriously bring a new threat to a new danger. My opinion was that any
organization from individual countries would protect for the sake of this
danger. My divorce on this said to a lot of comfort and cool temperament,
"Why do you oppose such a generation of human race?"
I am sure that no one would have
given such an insignificant statement so simple in the previous century. This
is a statement of a man who failed to establish balance between himself and
there was no hope of success in this regard. This is an isolation of isolation
and isolation from which many people are passing these days.
Such questions are simple, easy work,
but it is difficult to answer with a definitive example. I will do as much as I
try. Although I am aware of the fact that our feelings and our efforts are
often contradictory and confusing. Furthermore, they can not be described in
simple and simple ways.
The individual is a social and social
entity at the same time. As his individual body, he strives to protect himself
and those who live close to him and also try to satisfy his desires and to
pursue his inner ability. As a human being, he recognizes himself as others.
And tries to get the love of the people living with them. Joining their
happiness, to comfort them in their eyes and to try to save their lives. They
vary, and sometimes the presence of united one is one. The specific character
of the man commits and his special consensus is a person's balance of balance
and salary balance Rays determine its part in the welfare. It is possible that
the mutual strength of these two factors is inherited. But the decisive factor
in the formation of the last person is the social being in which it is evolved.
It involves the structure of society, which it produces, the specific patterns
of this community's traditions and behavior. The abstract concept of
"society" for an individual is a combination of indirect and indirect
relationships of a person, the relationships that we associate with the
contemporary and early generations of people. The person himself is able to
think, feel, try and work, but he depends on the physical presence and
emotional presence of the society so that the society's structure
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP