ملتان کو گردونواح میں قتل آم
ملتان کی دھرتی اپنے میٹھے آموں کی وجہس ے دنیا بھر میں اپنی الگ شناخت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب اس خطے کے آموں کے درخت بے دردی سے کاٹے جانے لگے تو سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیت فارموں سے ان کی کٹائی کے خلاف موثر آوازیں بلند کی جارہی ہیں۔ آواز بلندکرنے والوں میں صرف کسان، کاشتکار یا ماحولیاتی آلودگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں ہیں بلکہ اس میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن کا براہ راست آموں کی کاشت یا فروخت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان میں وکلاء، ڈاکٹرز، نرسیں، صحافی، سماجی حتی کہ دینی تنظمیں بھی شامل ہیں۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ مسئلہ کسی ایک کا نہیں بلکہ پورے ملتان کے باسیوں کا بن گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ آموں کی کاشت سے قبل ملتان اورگردونواح کا علاقہ صرف ریتلے علاقے پر مشتمل تھا۔ پھر قدرت کا ایسا کرشمہ ہوا کہ کچھ آموں کے درخت جب دریائے چناب کی بیلٹ جو راوی سے مل کرشروع ہوتی ہے، میں لگائے گئے تو ان آموں کے ذائقے کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ بس پھر کیا تھا انڈیا کے مختلف علاقوں سے آموں کے پودے لا کر انہیں اس علاقے میں کاشت کیا جانے لگا۔ قدرت کا کمال دیکھیں کہ کبیروالا سے شروع ہوکر دریائے چناب جو ہیڈ پنجمند کے بعد جتوئی سے آگے جاکر دریائے سندھ کا حصہ بنتا ہے وہاں تک آموں نے جو نتیجہ دیا وہ دنیا بھر میں کسی بھی جگہ سے حاصل ہونے والے آم نے نہیں دیاہے۔ ریسرچ کے مطابق دریائے چناب کے راوی سے ملنے کے بعد والے پانی اور اس علاقہ کی مٹی کے ملاپ سے پیدا ہونے والے آم میں جو قدرتی مٹھاس، خوشبو اور رنگت ملتی ہے وہ دنیا کے کسی بھی آم کو حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ ملتان جو اپنی الگ اور جداگانہ شناخت رکھتا ہے اپنی الگ زبان، الگ ثقافت کا امین ہے جو صدیوں پر محیط ہے اس علاقہ میں عوام بھی آموں جیسی میٹھی بولی بولتے ہیں اور کپاس جیسا نرم رویہ رکھتے ہیں اس کا ثبوت اس علاقہ کی زبان ملتانی زبان سے بھی ملتا ہے جو دنیا بھر میں میٹھی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔
آموں کے درختوں سے یہاں کے عوام کو الگ انس، محبت اور رومانس ہے۔ آموں کے درختوں کا یہ سلسلہ اب تو لیہ سے ڈی جی خان، راجن پور، رحیم یار خان سے اندرون سندھ تک جبکہ میاں چنوں، بورے والا، وہاڑی سے لے کر بہاولپور کے علاقوں تک پھیل چکا ہے۔ افسوس کے آموں کا گڑھ سمجھا جانے والا ملتان اب آموں کے درختوں سے تیزی سے محروم ہورہاہے۔ آج ملتان میں آموں کے درختوں کو تیزی سے کاٹا جارہا ہے اس سے ایک طرف تو ماحولیاتی آلودگی اور تباہی پھیل رہی ہے تو دوسری طرف درجہ حرارت میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ آموں کے درختوں کے درختوں کی وجہ سے ملتان کے شمال مغرب اور شمال مشرق سے آنے والی گرم ہواؤں اور تھپیڑوں کا راستہ رک جاتا تھا جس سے ملتان شہر میں گرم ہوا کم داخل ہوتی تھی اور آندھیوں کا زور بھی ٹوٹ جاتا تھا۔ یہ درخت ذیادہ تر دریائے چناب کے دونوں کناروں پر لگائے گئے تھے اور ان کی وجہ سے سیلاب کا راستہ روکنے میں بھی کافی مدد ملتی تھی مگراب ان درختوں کی کٹائی سے آندھیوں کا راستہ جہاں روکنا مشکل ہوگیا ہے۔ وہاں سیلاب کے خطرات بھی پہلے سے ذیادہ بڑھ گئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے وژن کے مطابق جہاں بلین ٹری منصوبہ کو حکومت فخر سے پیش کرتی ہے اور اس کا تعارف کرواتی ہے وہاں آموں کے درختوں کا بے دریغ کاٹا جانا بھی حکومت کے لئے بھی ایک اہم سوال ہے۔ اس حوالے سے ان درختوں کی کٹائی کی ایک بڑی وجہ کمرشل ازم بھی ہے۔ کسان اور غریب کاشتکار کو اپنی فصلوں کا وہ معاوضہ نہیں مل رہا ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔ اگر حکومت اس پر توجہ دے تو اہم مسئلہ بروقت حل ہوسکتا ہے۔ واضح عدالتی احکامات کے باوجود حکومت اور انتظامیہ کی ناک کے عین نیچے آم کے درختوں کی بے دردی سے کٹائی کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے نام پر ملتان اور گردونواح میں قتل آم دھڑے سے ہورہا ہے، ملتان اور نواحی علاقوں میں بڑے زمیندار گھرانوں نے اپنی ہزاروں ایکڑ اراضی کو کمرشل کرنے کی غرض سے آموں کے درختوں کی ازخود تلفی کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان بااثر زمیندار گھرانوں نے اس سازش کے ذریعے پہلے مرحلے میں آموں کے درخت خود کراب یا بیمار ظاہر کردئیے اور پھر وہاں دیگر سبزیاں اگانے کا پروگرام شروع کردیا لیکن اس مقصد اس رقبہ کو ہاؤسنگ کالونیوں کے لئے پرکشش جگہ بنا کر دس لاکھ روپے ایکڑ والے رقبہ کو ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ روپے فی ایکڑ کی فروختگی کا پلان بنا لیا ہے۔ آموں کی کٹائی کا سلسلہ روکنے کے لئے عدالت عالیہ کو بھی درخواست دائر کی گئی ہے جہاں سے حکم امتناعی بھی مل چکا ہے۔ تاہم انتظامیہ تاحال آموں کے درختوں کی کٹائی کے سلسلے کو روکنے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ شہریوں، سماجی اور عوامی حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آموں کے اس قتل عام کو بند کرائیں۔ ملتان جسے اولیاء کی سرزمین ہونے کے علاوہ آموں کے حوالے سے بھی دنیا بھر میں شہرت حاصل ہے۔ ملتان میں دریائے چناب اور دریائے راوی جس جگہ آکرملتے ہیں وہاں سے آموں کے درختوں کا ایسا نایاب سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کی مثال دنیا بھر میں کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔ لاکھوں ایکڑ رقبہ پر آم کے درخت لگانے کا یہ سلسلہ صدیوں پہلے شروع ہوا تھا۔ اس سے قبل آموں کے درخت لگانے کے لئے جب ریسرچ شروع کی گئی تو ملتان کے دریائے چناب کے علاقہ سے ملحقہ زمین کو آم کی کاشت کے لئے سب سے ذیادہ موزوں قرار دیا گیا پھر اس علاقہ میں آموں کی کاشت کے لئے انڈین پنجاب، ہریانہ اور دہلی کے علاقوں سے آموں کو منگوا کر کاشت ان علاقوں میں شروع کی گئی۔ شروع میں صحرائی گردانے جانے والے اس علاقہ میں آم کی کاشت مشکل ترین مرحلہ تھا تاہم آج اس علاقہ کے آم کو دنیا بھر میں شہید سے میٹھا اور بہترین پھل گردانا جاتا ہے۔ کئی نسلوں کی محنت سے تیار ہونے والے ان آموں کو بالآخر کمرشل ازم کی نظر لگ گئی اور ہاؤسنگ کالونیوں نے جیسے ہی ملتان کا رخ کیا تو پھر آموں کے درختوں کی کٹائی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی تیزی سے جاری ہے۔ ابتداء میں ملتان شہر جس کی حدود مظفرآبا دے شروع ہوکر چوک کمہارانوالہ تک ختم ہوجاتی تھی۔ آج شیرشاہ سے شروع ہوکر خانیوال کے ضلع تک پہنچ گئی ہے۔ بندبومن، پرانا شجاع آباد روڈ، وہاڑی روڈ، بہاولپور روڈ پر بھی پچیس کلومیٹر تک کے علاقوں کو ہاؤسنگ کالونیوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آموں کے درختوں والا رقبہ جو چند سال قبل دس سے پندرہ لاکھ ایکڑ تک فروخت ہورہا تھا۔ ہاؤسنگ کالونیوں کے آنے کے بعد یہ رقبہ ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے ایکڑ میں فروخت ہورہا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ اب بند بوسن سے آگے نواب پور کے علاقہ سے آگے بھی تیزی سے درختوں کی کٹائی کا عمل شروع ہے۔ پہلے مرحلہ میں زمیندار آم کے درخت کے سوکھ جانے کا بہانہ بناتے ہیں پھر کٹائی کے بعد وہاں گند، گنا اور کپاس کی کاشت کی جاتی ہے۔ تاہم اصل مقصد بڑی ہاؤسنگ کالونیوں کو سفید پلاٹ دینا ہے جس کی قیمت بہرحال عام مارکیٹ میں ذیادہ لگ جاتی ہے۔ عوامی حلقوں نے درختوں کی کٹائی کو فی الفور روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی دوران لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ کے مسٹر جسٹس شاہد وحید نے ہاؤسنگ کالونیوں کے قیام کے دوران ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں آم کے درختوں کی کٹائی کے حوالے سے دائر رٹ درخواست پر درختوں کی کٹائی کو روک کر ایم ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور چیف آفیسر کارپوریشن کو عدالت طلب کرتے ہوئے ان سے اکیس اپریل کو تحریری وضاحت طلب کی تھی۔ عدالت عالیہ نے ہائیکورٹ بار کی جانب سے دائر رٹ درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے مذکورہ رٹ درخواست کی اگلی سمات کو مسٹر جسٹس شاہد کریم کے پاس لگانے کی ہدائیت بھی کی ہے۔ اس سے قبل آم کے درختوں کی کٹائی سے متعلق مسٹر جسٹس شاہد کریم ایک رٹ درخواست کی سماعت کرچکے ہیں۔ عدالت عالیہ نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ یہ درخواست عام آدمی کے مفاد سے جڑی ہے۔ درختوں کی بے دردی سے ہونے والی کٹائی سے جہاں ملتان کے تاریخی ورثہ آم کے ناپید ہونے کا خدشتہ لاحق ہے وہاں ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے ہونے والا اضافہ بھی عام آدمی کی صحت سے متعلق ہے۔ قوانین میں نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے عناصر کو تقویت ملتی ہے جو درختوں کی کٹائی کے ذریعے ماحول کو آلودہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ آئین کے آرٹیکل نو کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یہ آرٹیکل انسانوں کو صاف ماحول کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ یہ اہم نوعیت کی رٹ درخواست ہے۔ اکیس اپریل سے ڈی جی، ایم ڈی اے اور چیف آفیسر میٹروپولیٹین کارپوریشن تمام رہائشی کالونیوں کا خود معائنہ اور دورہ کریں گے اور ان کالونیوں میں گرین ایریا کے لئے مختص رقبہ اور درختوں کی کل تعداد کا ریکارڈ بھی اپنے ہمراہ لے کرآئیں گے۔ اس سے قبل عدالت عالیہ میں رٹ درخواست دائر کرتے ہوئے ہائیکورٹ بار کے صدر سید ریاض الحسن گیلانی کی جانب سے ایڈوکیٹ ظفراللہ خاکوانی، جنرل سیکرٹری سجاد حیدر میتلا اور محمود اشرف خان نے موقف اختیار کیا کہ مختلف کالونیوں کے نام پر آموں کے درختوں کی کٹائی کا عمل جاری ہے۔ جس سے جہاں ملتان اپنے تاریخی ورثے سے محروم ہوراہ ہے۔ وہاں ماحولیاتی آلودگی میں بھی زبردست اضافہ ہورہا ہے۔ نئی ہاؤسنگ کالونیوں کے قیام سے درختوں کی کٹائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ آئین کے احکامات کی بھی سراسرخلاف ورزی ہے۔ عدالت عالیہ اس معاملے کا نوٹس لے۔ ہائی کورٹ بار کے صدر سید ریاض الحسن گیلانی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہائیکورٹ بار اس خطہ کے تمام باسیوں کے حقوق کی محافظ ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ اور درختوں کی بے دریغ کٹائی پر رٹ درخواست دائر کی گئی ہے۔
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP