مری جیسے سانحات سے کیسے بچا جائے
تحریر: غلام اللہ کیانی
مری میں جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رونما ہونے والے سانحہ کی بازگشت مسلسل سنائی دے رہی ہے، اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ تفتیش اور تحقیق جاری ہے۔ ابتدائی طور پر پتہ چلا اور اس پر اتفاق رائے ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں گاڑیوں کے اندر زہریلی گیس جمع ہونے سے ہوئیں۔ درحقیقت اس دھرتی پر دو پاکستان ہیں۔
ایک اشرافیہ کا اور دوسرا مسائل میں گھرے عوام کا، یہاں دوہرے معیار ہیں، دوہرا انصاف ہے اور دوہرا احتساب ہے۔ یہاں ایک طبقاتی خلیج ہے جس نے معاشرے کو تقسیم کررکھا ہے۔ ایک پاکستان میں اشرافیہ کو جدید دنیا کی تفریحات کا حق حاصل ہے اور دوسری طرف محرومیوں کا ڈھیر ہے۔ ہر سانحہ کے بعد چیخ وپکار ہوتی
ہے۔ ٹی وی اسکرینوں پر سانحے کی پل پل کی خبریں آتی ہیں ۔ کون ذمہ دار، کون غیرذمہ دار کے چیختے دھاڑتے بیانات آتے ہیں اور ہر سانحے کے بعد ایک اور سانحے کا انتطار کیاجاتا ہے۔ اویس توحید، فواد احمد، ڈاکٹر نعمان احمد جیسے مبصرین کی آراء بھی کافی توجہ طلب ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر قطار میں پھنسی ہزاروں گاڑیاں برف میں دبتی جارہی تھیں مگر نہ سرکاری اہلکار، نہ حکومت اور نہ اربوں روپے کی لاگت سے قائم ہونے والی نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا کچھ معلوم تھا۔
این ڈی ایم اے کی تشکیل 2005کے ہولناک زلزلے کے بعد ہوئی تھی کہ مستقبل میں قدرتی آفات سے نمٹنے کا ذمہ دار یہی ادارہ ہوگا۔ مگر گزشتہ برسوں میں سیلاب ہوں یا طوفانی بارشوں کی تباہ کاریاں، اس ادارے کی کارکردگی ساکت ہی رہی۔
جس حکومت کے منشور میں سیاحت کا فروغ کلیدی نکتے انڈسٹری کی حثیت رکھتا ہے اس حکومت کے وزراء اور مشیران کرام کے بیانات کا جوابدہ کون ہوگا/ جو سانحہ سے قبل شادیانے بجا رہے تھے کہ مری میں ایک لاکھ گاڑیاں داخل ہوئیں۔
ہرطرف سیاح ہی سیاح ہیں، معشیت پھل پھول رہی ہے۔گویا حکومت کے نقادوں پر لعن وطعن اور سرکار کا بول بالا ہو۔ سانحہ رونما ہواتو ستم ظریفی دیکھئے کہ بیانات نے بھی قلابازی کھائی۔ وزیراعظم ہوں یا ان کے مشیران خاص سب کے مذمتی بیانات میں یہ سطر بھی شامل تھی کہ سیاحوں کو موسم کی پیش گوئی دیکھ کر سفر کرنا چاہئے تھا۔ گویا ذمہ داری لوگوں کی ہے۔
مری میں برفانی طوفان کی پیش گوئیاں کی جارہی تھیں تو میڈیا آگاہی پہچانے کا کام کرسکتا تھا مگر اس وقت وہی سازشی نظریات دہرائے جارہے تھے وہی تین سیاستدان یا تین سیاسی تجزیہ کار اور وہی " نوازشریف کی واپسی ہوگی یا نہیں" ، "کیا عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی الٹی گنتی شروع ہے"، " کیا اسٹیبلشمنٹ متبادل کی تلاس میں مسلم لیگ نواز سے ڈیل کرہی ہے یا زرداری سے" وغیرہ وغیرہ۔
لیکن جب ریاست کی سوچ انتشار ہو تو معاشرے میں محقق اور دانشور غیراہم قرار پاتے ہیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں بھی شاید ہیجان کی نذر ہوجاتی ہیں۔ سانحہ مری میں جان چلی جانے پرسرکار کی جانب سے رقم ادا کرنے کا روایتی فارمولہ دہرایا گیا۔ اس مرتبہ ایک جان کی قیمت آٹھ لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔ انسانی جان کو بچانے کی قیمت کا بھی سودا ہونا چاہیے ۔ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ مری جانے والے سیاح جاں بحق ہوگئے۔ کئی ایجنسیوں نے ریلیف اور ریسکیو سرگرمیاں تو شروع کیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے تھے ۔
پارکنگ کی جگہوں کی عدم دستیابی اور ٹریفک جام سےبچنے کے لئے مری میں نجی گاڑیوں کا داخلہ بند کردینا چاہئے تھا۔ متبادل کے طور پر ہر طرح کے موسمی حالات اور برفانی طوفان جیسے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے ضروری سازوسامان سے لیس مضبوط وینز اور کوسٹر چلانی چاہئیں۔ اس طرح ذیادہ سے ذیادہ لوگ برف میں پھنسنے کے خطرے کے بغیر سیرکرسکیں گے۔ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے مختصر فاصلوں پر ایمرجنسی رسپانس سنٹرز بنانے چاہیں۔ سیاحتی ادارے دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لئے گشت کا نظام بھی مرتب کرسکتے ہیں۔ سیاحوں کے لئے ٹورازم ایڈوائزری اینڈ انفارمیشن ایپ تیار کی جانے چاہئے۔
سیاحتی سیزن میں متعلقہ محکموں کو لازمی طور پر سیاحوں کی رجسٹریشن کا نظام شروع کرنا چاہیے تاکہ انتظامیہ سیاحوں کے بارے میں درست ڈیٹا، متوقع قیام کی مدت اور دیگر ضروری تفصیلات حاصل کرسکے ۔ اس قسم کا سانحہ کسی بھی وجہ سے کسی بھی جگہ رونما ہوسکتا ہے۔ حکومتی محکموں کو چاہیے کہ ایسے تمام مقامات پر نظر رکھی جائے جہاں بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ ایسے مقامات میں سیاحتی مقامات، مزارات اور مذہبی اجتماع شامل ہیں۔
مری جیسے سانحے سے بچنے سیاحتی سرگرمیوں کا سائنسی بنیاد پر انتظام کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے سیاحوں کا بہتر انتظام کرنا، نجی گاڑیوں کو محدود کرنا، ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کو ریگولیٹ کرنا، موسمی ایڈوائزری پر بروقت عمل کرنا، ایک قابل اعتماد مواصلاتی نظام وضح کرنا، ہنگامی ردعمل میں بہتری لانا، سیاحوں کی آگہی کے لئے پروگرام ترتیب دینا اور اس طرح کی کچھ پیشگی شرائط ہونا چاہیں۔
مری پولیس کے ابتدائی بیان کے مطابق اموات گاڑیوں کے اندر گیس بھرنے کے سبب سے ہوئیں ۔ لازم ہے کہ سب کچھ حکومت پر ڈالنے کے بجائے اپنی ذمہ داری بھی پوری کرنی چاہئے۔
اب تو ہر فون میں موسم بتانے والی اپیلیکشن موجود ہے اس لئے سفر پر جائیں یا کسی کام سے گھر سے باہر جا رہے ہوں تو صرف ایک منٹ نکال کر موسم کا حال جان لیں۔ تاکہ کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچا جاسکے اور خاص طور پر موسم کی مناسبت سے لباس کا انتظام کریں۔ خاص طور پرجب شدید گرمیوں میں ہیٹ اسٹروک یا بارشوں کے موسم میں شدید طوفان کے امکانات ظاہر کئے جارہے ہوں توامریکی ادارہ صحت گاڑی میں کاربن مونو آکسائیڈ سے محفوظ رہنے کے لئے تجویز کرتا ہے کہ اگر برفباری میں گاڑی پھنس جائے تو ایک گھنٹے میں صرف دس منٹ گاڑی کا انجن اور ہیٹر چلائیں اور پھر بند کردیں۔ گاڑی کی ایک کھڑکی کو تھوڑا سا کھلا رکھیں اور یہ یقینی بنائیں کہ ایگزاست پائپ بلاک نہ ہو۔
کچھ دیر کی سہولت یا تفریح آپ کی زندگی کا نعم البدل نہیں ہوسکتی ہے۔ احتیاط ضروری ہے اور اپنی جان کی حفاظت کو اولین ترجیع دیں۔
Batreen
ReplyDeleteبہت شکریہ سپورٹ کرنے کا
Delete