ہمارا حال اور مستقبل - Haripur Today

Breaking

Saturday, 16 January 2021

ہمارا حال اور مستقبل

 


 

ہمارا حال اور مستقبل                                                                  ملک محمدعاشق اعوان

سیانے کہتے ہیں کہ اگر آپ نے ترقی کرنی ہے تو دس اچھی عادتیں اپنا لیں، تو آپ کے لئے سارے بند دروازے کھل جائیں گے، لیکن اگر آپ کسی بڑے خاندان سے بھی تعلق رکھتے ہیں لیکن آپ کی عادات اچھی نہیں ہیں تو پھر کوئی شخص بھی آپ کو اور آپ کے خاندان کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکے گا،دنیا میں کامیابی کا یہی ایک گُر ہے کہ آپ خود اچھے ہوجائیں تو اس کا پھل آپ کو ضرور ملے گا، اور اگر آپ غلط راستے پرنکل گئے تو آپ کے مقدر میں بربادی کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ آپ یہ جان کر ضرور حیران ہوں گے کہ امریکہ کے جتنے بھی صدر گزرے ہیں ان میں سے اکثریت شراب نوشی اورسگریٹ نوشی نہیں کرتے تھے ان کے گھروں میں لائبرریاں ہیں وہ روزانہ جاکنگ یا سائیکلنگ کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل امریکی کمپنیوں کے بارے میں سروے کیا گیا ان کمپنیوں میں سے ۲۲ ٹاپ کی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسرز سگریٹ اور شراب نہیں پیتے تھے یہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر ورزش بھی کرتے ہیں، روز کتابیں بھی پڑھتے ہیں، یونیورسٹیوں میں لیکچرز بھی دیتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل ویلیفئیر کے کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ ان کمپنیوں کے مالک اپنی گاڑی بھی خود ڈرائیو کرتے ہیں۔ یہ صرف آفیشل تقریبات میں ڈرائیور کو ساتھ لے کرجاتے ہیں۔ عام حالات میں اکیلے گاڑی کو ڈرائیو کرتے ہیں۔ اور لائن میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظارکرتے ہوئے سودا سلف خریدتے ہیں۔

اسی سلسلے کو دیکھتے ہوئے جب ہم اپنے معاشرے کے ناکام اور کامیاب لوگوں کا تجزیہ کرتے ہیں توہمارے سامنے حیران کن حقائق کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا انسان جب سیاسی یا کاروباری طور پر کامیاب ہوجاتا ہے یا اس کے پاس روپے پیسے کی ریل پیل ہوجاتی ہے تو تو یہ شراب، سگریٹ یا سگار ضرورپینا شروع کردیتا ہے۔ یہ ساراسارا دن لیٹا بھی رہتا ہے اور پانی کے گلاس کے لئے بھی کسی کو آواز دیتا ہے۔ اس کی زندگی میں ڈرائیور اور سیکورٹی گارڈز ضرور ہونگے اور اب اسے اور اس کی اولاد کو پڑھنے، لکھنے، ورزش کرنے اور لائن میں بھی لگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سوچ کو ہم تھرڈ ورڈ سوچ کہہ سکتے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں فرسٹ ورلڈ کی سوچ اور طرززندگی بالکل مختلف ہے ان لوگوں کے نزدیک یہ سوچ ہی نہیں ہے کہ کوئی مشہور، دولتمند شخص ہو اور وہ جسمانی طور پر فٹ نہ ہو۔ اس میں عاجزی اور انکساری نہ ہو۔ ایماندار اور مہذب نہ ہو۔ یورپین اور امریکی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ناکام شخص کی عادات ہیں جبکہ ہمارے معاشرے کی یہ سوچ ہے کہ ہمارے ملک کا کوئی طاقتور شخص، ایمان، مہذب، پڑھا لکھا اورصحتمند نہیں ہوسکتا، یہ اپنی گاڑی بھی خود نہیں چلا سکتا اور نہ ہی اپنے گھر کا سوداسلف خود خرید کرلا سکے گا، اور یہی وہ ناکام سوچ ہے جو ہمیں کامیاب نہیں ہونے دے سکتی۔ جبکہ وہاں پر اگر کوئی مہمان ان لوگوں کے پاس آتا ہے تو وہ مہمان کی حثیت کا اندازہ لگائے بغیر اس کو وہ اپنے ہاتھ سے کافی بنا کر دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اس سے ان کی شان کا کوئی کنگرا ڈھیلا نہیں ہوجاتا ہے جبکہ ہم لوگ گاڑی کا دروازہ بھی دوسروں سے کھلواتے ہوئے فخرمحسوس کرتے ہیں۔ اور جب تک ہم کسی تقریب میں لیٹ ہوکرنہ جائیں اور لوگوں کو انتظار نہ کروالیں اس وقت تک ہم خود کو اہم نہیں سمجھتے ہیں۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ یورپ / امریکہ اگر یورپ ہے تو اس کی وجہ یورپی / امریکی لوگوں کی عادات واطوار ہیں۔ یہ لوگوں کو صرف دو اقسام کے حساب سے ناپتے ہیں۔ اچھی عادتوں والے لوگ اور بری عادتوں والے لوگ یہ خان، ملک، چوہدری، وڈیرا کے حساب سے لوگوں کو نہیں ماپتے، اگر آپ پڑھے لکھے، مہذب، ایماندار، وقت کے پابند اور جہد مسلسل کے عادی ہیں تو آپ کو دنیا کی کوئی طاقت کامیاب ہونے میں نہیں روک سکتی اس کے برعکس اگر آپ کاہل، سست، بے ایمان، غیرمہذب ہوں تو پھر چاہے آپ کسی بھی خاندان سے تعلق رکھتے ہوں۔ یورپی /امریکی معاشرہ آپ کو مسترد کردے گا جبکہ ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ خود کوبدلیں جس سے معاشرے میں بدلاؤ آئے گا اور آپ کو اچھے حکمران میسر آئیں گے، آپ کا ملک اور معاشرہ ترقی کرے گا جس کے اثرات آپ کی آنے والی نسلیوں پر پڑیں گے۔

 

 

No comments:

Post a Comment

Thank you for contacting us, we will response ASAP

Pages