مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، پرورش پائی، انگریزی سکول میں والد صاحب نے داخل کروا دیا اور دنیاوی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی، تھوڑا سا دین مولوی صاحب کی وساطت سے سیکھ لیا، دل میں آیا کہ کیوں نہ دنیا دیکھی جائے، اور بیرون ممالک کے سفر بھی کئے، گھر والوں کو خیال آیا کہ بیٹے کی شادی کردی جائے وہ بھی ہوگی اور بچے بھی ہوں گے۔ آج بیٹھا تو صوفی برکت علی لدھیانوی کی بات یادآئی کہ اے اللہ پاک اگر ہمارا دنیا میں آنا، جوان ہونا، بچے پیداکرنا اور مرجانا زندگی ہے توہمیں یہ زندگی نہیں چاہئیے ہم سے یہ زندگی واپس لے لے یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ یہ سب کام تو جانور بھی کرلیتے ہیں اگر جانور بھی وہ ہی سب کرتے یں جو ہم کررہے ہیں تو پھر ہم اپنی زندگی کے کس مقام پر ہیں؟
ویسے تو ہم مسلمان انگریزوں کو فالو نہیں کرتے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجا نہیں لاتے مگر مسلمان ہوکر ہم نے آنے والی نسلوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ جہاں تک میرا علم ہے وہاں میں نے دیکھا کہ ہمارے اپنوں نے اپنے پاؤ گوشت کے لئے ہماری بھینس ہی مار دی۔ اپنی روٹی کے چند سکوں کے لئے دین کی اس بحث میں ڈال دیا کہ نہ ہی ہم دنیا کے رہے اور نہ ہی دین کے۔ ہمیں حاضر ناظر، فنا وبقاء اور دیوار کے آگے پیچھے کے ان چکروں میں ڈال دیا کہ ہم کسی کو دین سکھانا تو دور اپنوں کو ہی منافق، مشرک اور کافر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ان سب کو بھول کر اپنے ہونے کا احساس پیداکریں اگر انگریزوں کی طرح ایجادات نہیں کرسکتے تو اخلاقی اقدار کو اتنا بہترین کرلیں کہ لوگ آپ کی مثال دیں، جو گزرگیا اس کو بھول کراپنوں کو گلے لگائیں کیونکہ مولانا طارق جمیل صاحب فرماتے ہیں کہ اگر لوگ پیار کے بھوکے ہیں تو ان کو پیار دیجئے۔ انشاء اللہ جلد ہی آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ آپ ان لوگوں میں سے نہیں جو کچھ فرق پیدا کئیے بغیر دنیا سے چلے گئے۔
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP