تکلیفوں سے بھرپور ایک طالبہ کی زندگی جو مفلوج ہوکربھی لاکھوں لوگوں کی مسیحا بنی ڈاکٹر انعم انجم
اس زرخیززمین کی ایک اور بیٹی انعم انجم ہیں، وہ ایک ذہین، محنتی اور پرعزم تھیں، جن میں شروع ہی سے منفرد کام کرنے کا جذبہ اور لگن موجود تھی، والدین کے ساتھ دو بھائیوں اور ایک بہن پر مشتمل یہ چھوٹا سا خاندان مظفرآباد میں رہائش پذیر ہیں، عام اداروں سے تعلیم حاصل کرتے کرتے جب انعم نے ایف ایس سی کی تواپنے لئے ایم بی بی ایس کا شعبہ منتخب کیا اور ایوب میڈیکل کالج میں تعلیم شروع کی۔
ان کی زندگی کی آزمائش اس وقت شروع ہوئی جب وہ میڈیکل کی طالبہ تھیں، ایک دفعہ دوران سفر ڈاکوؤں نے ان کی گاڑی لوٹنے کی کوشش کی مگر مزاحمت کرنے پر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ڈاکٹر انعم کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک گولی لگی جو ان کو زندگی بھر کے لئے مفلوج بنا گئی، علاج معالجہ کی وجہ سے وہ بچ گئیں مگر ان کی ٹانگیں مکمل طور پر اور ہاتھ جزوی طور پر بے کار ہوگئے، اس بچی کے پاس اس وقت دو راستے تھے یا تو وہ سب کچھ چھوڑچھاڑ کر گھر بیٹھ جائے اور ساری زندگی اپنی معذوری کو اپنی مجبوری سے منسوب کرکے ایک بے بسی کی زندگی گزاردے، اور دوسرا راستہ سینہ تان کر ہر مشکل سے ٹکرانے کا تھا، انہوں نے دوسرا راستہ اپنایا اور ہمت نہیں ہاری اور نہ ہی غیرمتوقع حادثے کے نتیجے میں ہونے والی معذوری کے آگے سرجھکایا۔
اس جواں ہمت بیٹی نے معذوری، مشکل، تکلیف اور اذیت برداشت کرنے کے باوجود ہمت نہیں ہاری، انہوں نے ثابت کیا کہ اعلی تعلیم اور کامیابی کا تعلق جسمانی ساخت سے ذیادہ مصم ارادے اور کچھ کردکھانے کے جذے سے ہوتا ہے، وہ لوگ جو کامیابی کے سفر میں رکاوٹوں کی پرواہ نہیں کرتے وہی بالآخر غیرمعمولی صلاحیتوں سے نوازے جاتے ہیں اور کامیابی ان ہی کے قدم چومتی ہے، لہذا وہ ایک مضبوط ہمت اور حوصلے کے ساتھ دنیا کی گہما گہمی میں مصروف ہوگئیں۔
شروع شروع میں انعم کو میڈیکل کی طالبہ ہونے کے ناتے پوری امید تھی کہ چند دنوں میں وہ چلنے پھرنے لگیں گی کیونکہ ان کی ہم وقت متحرک اور زندگی سے بھرپور شخصیت بستر پر لیٹنے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی لیکن یہ انتظار مہینوں اور پھر برسوں پر پھیل گیا انہیں اٹھنے، بیٹھنے، کھانے پینے حتی کہ کروٹ بدلنے جیسے ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے گھر والوں کی مدد کی ضرورت پڑتی تھی۔
معذوری ان کے لئے پہلا بڑا جھٹکا تب لائی جب عزیز واقارب کے بعد ان کے تعلیمی ادارے نے بھی ان کی تعلیم جاری رکھنے کے سلسلے میں مایوسی کا اظہار کردیا، انعم کے بقول یہی وہ لمحہ تھا جب انہیں احساس ہوا کہ اگر تعلیم حاصل نہ کی تو آنے والی زندگی ان کے اس سے بھی ذیادہ مشکلات لائے گی، انہوں نے والدین سے ضد کی کہ انہیں ہسپتال کے بستر پرہی کتابیں لاکردی جائیں کیونکہ وہ تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں۔
انعم کہتی ہیں کہ ”اس سارے عرصے مین اگر پہلی بار روئی تو اُس دن جب میں پہلی بار وہیل چئیر پر بیٹھی تھی لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے کیونکہ میری زندگی میں حرکت لوٹ آئی تھی اب میں ایک جگہ ساکت نہیں رہی تھی۔
شدید تکلیف کے باوجود انہوں نے دن رات محنت کی اور پانا کوئی بھی تدریسی سال ضائع کئے بغیر ایم بی بی ایس کی تعلیم کو جاری رکھا، دوران تعلیم ان کے مہربان ومشفق اساتذہ، نہایت ہمدرد اور غمگسار، دوستوں، والدین اور خاندان کے دیگر افراد نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ انہی دعاؤں تسلیوں او ر دی جانے والی اخلاقی مدد کی وجہ سے ہی وہ اس قابل ہوسکیں کہ ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد ہاؤس جاب شروع کی اور پھر سپیشلائزیشن کی، ان کی والدہ نے ان کا بہت ساتھ دیا اور اس کے بعد جب وہ دوبارہ مظفرآباد آئیں اور پریکٹیکل کیرئیر شروع ہوا تو عام ساتھی ڈاکٹرز نے بھی ان کابہت ساتھ دیا، ان ڈاکٹرز کی نگرانی میں انہوں نے اپنے پروفیشن میں بہت کچھ حاصل کیا، معذوری کے بعد جو مشکلات آئیں اور جس طرح ان کا مقابلہ کیا ان کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ
جب انسان صحتمند ہوتا ہے تو اسے اللہ پاک کی عطاء کردہ نعمتوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا، وہ ان نعمتوں کا استعمال اپنا حق سمجھتا ہے تاہم اگر ان میں سے کوئی ایک نعمت بھی چھن جائے تو زندگی ادھوری رہ جاتی ہے اور مسائل بڑھ جاتے ہیں، میرے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا، اس حادثے کے بعد میری پڑھائی کی روٹین، کالج میں اٹھنا بیٹھنا، دوستوں اور فیملی کے ساتھ گھومنا پھرنا یہ سب ایک دم سے مختلف ہوگئے،یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی، میرے جسم کے ساتھ ساتھ میرے ذہن کو بھی ان نئے چیلنجز کا سامنا تھا۔
اس حادثے کے بعد اندازہ ہوا کہ اچھی صحت کے ساتھ بہت دیر تک پڑھائی کرنا کتنا آسان ہوتا ہے، مگر جسمانی معذوری یا کسی کمی کے بعد انسان کو بہت مشکل سے ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے خیر ان تمام مراحل میں میرا اعتماد اور حوصلہ بحال رہا، علم کی محبت اور انسانیت کی خدمت کا جذنہ میری مشکلات پر حاوی ہوگیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں اپنے اٹھنے بیٹھنے، پڑھنے اور ملنے ملانے کی عادات اور آداب کو تبدیل کیا، پھر اپنی نئی زندگی کے معمولات کی عادی ہوگئی، مگر میرا ایک پیغام ہے اپنے ان تمام بہن بھائیوں کے لئے جوکسی ایسے مسئلے سے دوچار ہو ں کہ آپ نے ہمت کا دامن نہیں چھوڑنا ہے اپنے ذہن اور جسم کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنا ہے، اللہ تعالی کی ذات نے انسان میں بہت لچک رکھی ہے، انسان میں یہ بہت صلاحتیں چھپی ہوئی ہوتی ہیں ہم نے صرف ان کو ڈھوڈنا ہے، اگر آپ یہ کام کرنے میں کامیاب ہوگئے تو زندگی میں تمام چیلنجز کا مقابلہ کرسکتے ہیں، انعم کہتی ہیں
میں نے خود کو ”میں ہی کیوں؟“ والی مایوسی سے نکالاکیونکہ جو ہوا تھا اسے بدل نہیں سکتی تھی اب مجھے اپنے اندر تبدیلی لانا تھی میرے لئے اہم یہ تھا کہ میں اپنے مقصد تک جارہی ہوں کہ نہیں، اس سے فرق نہیں پرتا کہ میں اپنے پیروں پر چل کر جاتی ہوں یا ویلز پر۔
معذوری کے باعث پیدا ہونے والے دیگر طبی مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے انعم نے میڈیکل کی تعلیم مکمل کرلی، یہا ں ان کے لیئے ایک نیا فیصلہ منتطر تھا، معذوری کی وجہ سے چونکہ وہ ہاتھ ہلانے کے قابل نہیں تھیں اور انہیں انسانی رویوں، جذبات اور احساسات کو پڑھنے کا بہت شوق تھا، اسی لیے انہوں نے سائیکالوجی کے شعبے کوچنا۔
دوران تدریس انعم جس حادثے کا شکار ہوئیں اس قسم کے حادثے انسانوں کو تور کر رکھ دیتے ہیں، لیکن ان کے نزدیک معاملات زندگی کو اس حادثے کے بعد روکنا بلاجوا ز تھا ویل چئیر پہ آجانا ان کے لئے اتنا بڑا جواز نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر بدل دیتیں۔
انعم نے ہمیشہ رب کی ذات کا شکر ادا کیا، ایک وقت آیا کہ وہ بھی اپنی زندگی سے مایوس ہوچلی تھیں ایسے حالات میں اللہ کے ذکر نے ان کے دل ودماغ کو تقویت دی ان کا کہنا ہے کہ مایوسی، ناامیدی کی طرف لی جاتی ہے اور ناامیدی کا مطلب ہے کہ آپ نے زندگی سے ہار مان لی ہے،انہوں نے قائداعظم محمدعلی جناح ؒ کی مثال کو سامنے رکھ کر مشکل حالات کا مقابلہ کیااور ہمت ہارے بغیر انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، صرف وہی وقت تعلیم سے دور گزرا جو کہ علاج کی غرض سے ہسپتالوں میں گزرا۔ انہوں نے معذوری کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ ان پر حاوی ہوکر ان کی پہچان بن جائے بلکہ ایک جہد مسلسل سے خود کو اس قابل بنایا کہ آج وہ لوگوں کی خدمت کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
آج وہ سی ایم ایچ مظفرآباد میں بطور سپیشلسٹ روزانہ سینکڑوں مریضوں کو صحتیاب کرنے کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں، وہ ان لوگوں سے جن کے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں،سے ذیادہ محنت اور ذیادہ وقت مریضوں کے ساتھ صرف کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ اکثر مریض تومجھے دیکھ کر ہی بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ ہمت کرسکتی ہیں تو ہمارے مسائل تو آپ کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔
انعم نجم کے پاس ہر طرح کے مریض آتے ہیں اُن میں کچھ معمولی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں اور تھوڑی سے علاج معالجے سے ٹھیک ہوجاتے ہیں اور کچھ تھوڑے پچیدہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں جوکہ وقت کے ساتھ معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
عزم وہمت کا یہ نشان ان لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے جو کسی بھی طرح کی معذوری کو زندگی بھر کا روگ سمجھ کر غیرفعال زندگی گزار دیتے ہیں، ڈاکٹر انعم کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی انہیں اپنے علاقے کے لوگوں کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا ہے
آپ کے اردگرد بھی بے شمار ایسے لوگ ہوننگے جن کو حادثات یا کسی معذوری نے گھیر لیا ہوگا، انہیں بتائیں کہ کیسے مشکلوں کے ساتھ بھی نہ صرف کامیاب زندگی ممکن ہے بلکہ آپ بے شمار لوگوں کے لئے مثال بن سکتے ہیں اُن کا حوصلہ بن کر انہیں ان کی اہمیت کا احساس دلا دیں، انہیں سمجھائیں کہ عبرت اور تکلیف دہ زندگی سے لاکھ درجے بہتر ہے کہ کامیاب ہوکر دکھایا جائے، آپ آج ان کی آنکھوں کی امید بنیں وہ کل شاید لاکھوں کی امید بن جائیں۔
انسان کے ہاتھ پاؤں نہیں بلکہ اُس کے حوصلے اس کو اونچا اڑاتے ہیں
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP