پاکستان کی پہلی نابینا سی ایس ایس آفیسر صائمہ سلیم Saima Saleem
دنیا میں کچھ لوگ ایسا بلند حوصلہ اور مضبوظ عزم رکھتے ہیں،کہ انہیں ہر ناممکن چیز ممکن نظر آتی ہے، ان کا یقین اتنا بلند اور پختہ ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے حکومتوں کو اپنے قانون بدلنے پڑتے ہیں،پھر جب وہ ہر ناممکن کو ممکن کر دکھاتے ہیں تو تب مایوس کرنے والے لوگ ان کو رشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں، کچھ ایسی ہی کہانی اس ملک کی بیٹی صائمہ سلیم کی ہے۔
اس سے پہلے کہ وہ دنیا کے رنگ دیکھتی، اس کی خوبصورتی اور روشنیوں میں کھوجاتی اُس کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی، ابھی اُس کے قدم زمین پر لگنا شروع نہیں ہوئے تھے کہ اس کی زندگی میں اندھیرے چھا گئے، والدین پڑھے لکھے اور سمجھدارتھے،بیٹی کی بے چینی اوربے بسی دیکھ کر تڑپ جاتے، لیکن انہوں نے اپنے دل میں مایوسی اور بے بسی بسانے کے بجائے یہ عہد کیا کہ وہ اپنی بیٹی کی زندگی میں کوئی کمی نہیں آنے دیں گے، اور اس کی زندگی کو کامیاب بنائیں گے۔
لہذا جب اس کی تعلیم کا دور شروع ہوا تو والدین نے بھرپور وقت دیا، والد اُس کے ہر سبق کی کیسٹ ریکارڈ کرکے رکھ جاتے تھے جسے وہ سکول سے آکرسنتیں اور یاد کرتیں، اس طرح وہ بچپن ہی سے سکول میں اچھی پوزیشن کی حامل رہیں،اور انہوں نے انتھک محنت، خود اعتمادی کے باعث نہ صرف گریجویشن بلکہ ماسٹر میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا۔
صائمہ سلیم کی شروع سے ہی یہ خواہش تھی کہ وہ اسی ایس ایس کرکے فارن سروسز میں جائیں اور اپنے ملک کا نام روشن کریں، لیکن اُس وقت نابینا افراد سی ایس ایس میں شامل نہیں ہوسکتے تھے، انہوں نے درخواست کی کہ اُن کا امتحان کمپیوٹر پر لے لیا جائے، لیکن انہیں صاف انکار کردیا گیا، لیکن وہ ہار ماننے کو تیار نہیں تھیں، انہوں نے اپنی کوشش جاری رکھی، اور باآخر صدر پاکستان نے پبلک سروس کمیشن کو ہدائیت جاری کیں کہ وہ نابینا افراد کا امتحان کمیپوٹر کے ذریعے لینے کا آغاز کریں،یہ اُن کی بہت بڑی کامیابی تھی،اُن کی ذہانت اور کوششوں کے پیش نظرپہلی دفعہ پاکستان میں بریل کے ذریعے سی ایس ایس امتحان کا آغاز ہوا، ان کا جب رزلٹ آیا تو دیکھنے والے حیران رہ گئے کیونکہ انہوں نے پورے ملک میں خواتین میں پہلی اور مجموعی طور پر چھٹی پوزیشن حاصل کی تھی۔
لیکن مشکلیں ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے نابینا ہونے کے باعث انہیں فقط چار شعبوں (اکاؤنٹس، کامرس، انفارمیشن، پوسٹل) میں جوائن کرنے کی منظوری دی، جبکہ اُن کا خواب وزارت خارجہ کا تھا، وہ اپنا خواب ٹوٹتا نہیں دیکھ سکتی تھیں،لہذا وہ دوبارہ ڈٹ گئیں، وزیراعلی پنجاب نے انہیں اپنا معاون خصوصی بننے کی پیشکش کی، جس کو انہوں نے قبول کرنے سے معذرت کرلی، پھر مسلسل محنت اور کوشش کے بعد بالآخر وزیراعظم پاکستان نے اپنی خصوصی ہدایات جاری کرتے ہوئے انہیں وزارت خارجہ میں جائن کرنے کی اجازت دے دی، جوکہ بلاشبہ ان کی دن رات کی سخت محنت کا ثمر ثابت ہوئی، اپنی قابلیت کا لوہا منواتے ہوئے وہ سی ایس ایس کی تمام فارن ٹرینگ میں بھی وہ ٹاپ کرگئیں،اور اس کامیابی پر فارن سروسز اکیڈیمی کی جانب سے انہیں گولڈ میڈل دیا گیا۔اپنی قابلیت کی بنا پر انہوں نے امریکن یونیورسٹی کا سکالرشپ حاصل کیا اور ہیومن رائٹس میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔
صائمہ سلیم 2009سے جینوااقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقبل مشن میں کام کررہی ہیں،صائمہ سلیم بچپن سے ہی بالکل نابینا ہے، اور ان کو پاکستان کی ہیلن کیلر کہا جاتا ہے، وہ نابینا افراد کے لئے روشنی کی ایک کرن ہیں،صائمہ سلیم اس وقت انسانی حقوق پر کام کررہی ہیں،وہ ایک ایسی عظیم لڑکی ہیں جو اپنی انتھک کوششوں اور محنت سے نمایاں کامیابیاں حاصل کرکے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں۔
صائمہ سلیم نہ صرف ہمارے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے بھی ایک مثال ہیں،وہ پاکستان میں موجود لاکھوں خصوصی افراد کے لئے بھی رول ماڈل کی حثیت رکھتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ
اگر آپ کی لگن سچی ہے تو کوئی بھی مشکل آپ کو منزل سے دور نہیں رکھ سکتی جب انسان کو کسی معذوری کا روگ لگ جاتا ہے تو قدرت اس کے اندر مخفی حسیات کو جگا دیتی ہے جو اُس کی محرومی کا مداوا بن جاتی ہیں
صائمہ سلیم کی کامیابی میں بھی ان کی فیملی نے بھرپور کردار ادا کیا، ان کے والد نے اپنی بیٹی کی تعلیم کے لئے سینکٹروں کیسٹس ریکارڈ کیں جنہیں سن سن کر وہ سیکھتی رہیں، اور اس طرح وہ اپنی تعلیم میں نکھار لانے میں کامیاب ہوئیں،پاکستان میں صائمہ سلیم کے کردار کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری کامیابی کا دارومدار ہمارے اندر موجود سوچ کے معیار پر ہوتا ہے،جتنے بلند حوصلے ہمارے اندر ہوتے ہیں اتنی ہی بڑی کامیابی ہماری منتظر ہوتی ہے،پاکستان میں جہاں نارمل اور قابل ترین لوگ اکثر سی ایس ایس میں ناکام رہتے ہیں جیسا کہ سال 2019میں صرف 2.56%طلباء نے اس میں کامیابی حاصل کی تھی، جو ٹوٹل 15000ہزار میں سے صرف 372طالب علموں نے کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ 2016سال میں کامیاب طلباء کی شرح 2فیصد رہی اور ایسے امتحان میں ایک نابینا لڑکی کا نہ صرف کامیاب ہوجانا بلکہ پوزیشن حاصل کرلینا کسی معجزے سے کم نہیں،
اب بھی میرے وطن میں صائمہ جیسی بے شمار بیٹیاں موجود ہیں جنہیں ذرا سی امید اور توجہ درکار ہے،تھوڑی سی رہنمائی اور توجہ ان کی زندگی بدل سکتی ہے وہ بھی اس وطن کا نام روشن کرسکتی ہیں،آپ ان بچیوں پر اعتماد کرکے دیکھیں وہ آپ کو مایوس نہیں کریں گی، میرے وطن کے لاکھوں نوجوان سی ایس ایس کے امتحان کو پاس کرنا ناممکن سمجھتے ہیں،ان سب کو یہ کہانی پیغام دیتی ہے کہ ممکن اور ناممکن صرف ہمارے اندر کی باتیں ہیں،آپ کے پاس سب کچھ ہے لیکن یقین نہیں تو آپ ناکامیاب ہوجائیں گے، آپ کے پاس آنکھیں تک نہیں ہر طرف اندھیرے ہیں لیکن آپ کے اندر یقین کی روشنی موجود ہے تو پھر سب کچھ ممکن ہے کامیابی آپ کی ہے، لہذا کسی بھی امتحان میں کامیابی کے لئے اپنے اندر کے یقین کو مضبوط کریں، میرا آپ سے وعدہ ہے کہ کامیابی آپ کے قدموں میں ہوگی،لہذا اپنے اندر حوصلہ اور یقین بڑھائیے، عملی قدم اُٹھایئے، آپ کے خواب آپ کی کامیابی کے منتظر ہیں، صائمہ سلیم کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ
آپ کے اندر کی روشنی دنیا کی ہر روشنی سے اہم اور خوبصورت ہے
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP