حصہ دوئم
روزا لکسمبرگ:خواتین کا حق رائے دہی اور طبقاتی جدوجہد
12مئی 1912ء :دوسری سوشل ڈیموکریٹک خواتین کی ریلی کے موقع پر خطاب
(ترجمہ۔ تصور ایوب)
سرمایہ دارانہ ریاست (محنت کش) خواتین کو سیاسی زندگی کے ان تمام
فرائض اور کوششوں سے باز رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ قدم بقدم ( جدوجہد کے نتیجہ میں
) ریاست کو درحقیقت ان کو یونین سازی اور اسمبلی حقوق کا حق اور ضمانت دینے پر
مجبور ہونا پڑا۔ اب خواتین صرف آخری سیاسی حق سے محروم ہیں: ووٹ دینے اور بلاواسطہ
انتظامیہ اور مقننہ میں اپنے نمائندگان چننے کا حق اور خود ان اداروں کے ممبران
منتخب ہونے کا حق۔ لیکن سماج کے دوسرے حصوں کی طرح یہاں بھی(ریاست کا) نعرہ ایک ہی
ہے ’’چیزوں کو سرے سے شروع ہی نہ ہونے دو‘‘ لیکن چیزیں شروع ہو چکی ہیں۔ موجودہ
ریاست کو اس وقت گھٹنے ٹیکنے پڑے جب ان کو عوامی اسمبلیوں اور سیاسی انجمنوں میں
محنت کش خواتین کی شمولیت کو قبول کرنا پڑا۔اور ریاست نے یہ (حق) رضاکارانہ طور پر
نہیں دیا تھا، بلکہ محنت کش طبقے کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے زیر اثر یہ ضروری ہو گیا
تھا۔ یہ محنت کش خواتین کی ولولہ انگیز جدوجہد کا بڑھتا دباؤ ہی تھا جس نے
پروشو۔جرمن جیسی پولیس ریاست کو سیاسی انجمنوں کے اکٹھ میں مشہور ’خواتین کے لئے
مخصوص جگہ‘ کو ختم کرنا پڑا اور خواتین کیلئے سیاسی تنظیموں کے در وا کرنا پڑے۔ اس
کے بعد صورتحال بڑی تیزی سے تبدیل ہونے لگی ہے۔ محنت کش طبقے کی طبقاتی جدوجہد کی
ناقابل تسخیر فتوحات کے تھپیڑے خواتین کے حقوق بھی سیاسی دھارے کے بھنور میں لے
آئے ہیں۔ اپنے یونین سازی اور اسمبلی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش خواتین
نے پارلیمانی زندگی اور الیکشن مہمات میں بھرپور حصہ لیا۔ یہ اس تحریک ہی کا
ناگزیر اور منطقی نتیجہ ہے کہ آج لاکھوں محنت کش خواتین باغیانہ انداز میں نہایت
خود اعتمادی کے ساتھ یہ نعرہ لگاتے سنائی دیتی ہیں: ’’ہمیں حق رائے دہی چاہیے!‘‘
1848ء سے قبل کے مطلق العنانی کے ’’خوبصورت‘‘ دور میں ایسا بھی وقت تھا کہ جب سارے محنت کش طبقے کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ اس کا سیاسی شعور ’’اتنا پختہ‘‘ نہیں کہ سیاسی حقوق سے بہرہ ور ہوسکیں۔ لیکن آج محنت کش خواتین کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ بارہا اپنی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ محنت کش خواتین کی پر جوش مدد کے بغیر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نہ 12 جنوری 1912ء کی شاندار کامیابی حاصل کر سکتی تھی نہ ہی چالیس لاکھ سے زائد ووٹ۔ کسی بھی قیمت پر، محنت کش طبقے کو عوام کے کامیاب انقلابی ابھار کے ذریعے اپنی سیاسی آزادی کے کے حصول کیلئے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا پڑتا رہا ہے۔ جب تخت پر براجمان ’مقدس ہستی‘ اور قوم کے نابغہ روزگار اور شرفا نے حقیقت میں محنت کش طبقے کے آہنی مکے اپنے آنکھوں کے سامنے لہراتے دیکھے اور ان کے گھٹنوں کو اپنے سینوں پر محسوس کیا تب جا کر ہی ان کو عوام کی سیاسی ’بلوغت‘ پر یقین آیا اور ایسا بجلی کے کوندے کی تیزی سے ہوا۔ آج یہ محنت کش خواتین کی باری ہے کہ وہ اس سرمایہ دارانہ ریاست کو اپنی سیاسی بلوغت سے باور کرائے۔ ایسا محنت کشوں کی جدوجہد اور دباؤ کے تمام حربے آزماتے ہوئے ایک مستقل اور طاقتور عوامی تحریک کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔
خواتین کا حق رائے دہی ہمارا مقصد ہے۔ لیکن اس مقصد کے حصول کیلئے درکار عوامی تحریک صرف خواتین کا فریضہ نہیں ہے، بلکہ یہ محنت کش مرد و خواتین کا مشترکہ طبقاتی فریضہ ہے۔ جرمنی میں خواتین کو سیاسی حقوق کی عدم دستیابی اس رجعت کی، جو عوام کی زندگیوں کو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہے، کی صرف ایک کڑی ہے۔ اور یہ رجعت کے دوسرے ستون یعنی بادشاہت کیساتھ بہت قریب سے جڑی ہوئی ہے۔ جدید سرمایہ دارانہ، صنعتی، بیسویں صدی کے جرمنی میں، بجلی، اور ہوائی جہازوں کے عہد میں، عورتوں کو سیاسی حقوق کی عدم دستیابی، تخت پر براجمان ’مقدس ہستی‘ کی طرح مردہ ماضی کی رجعتی باقیات ہے۔ کسی خدائی اختیار بطور سب سے اہم سیاسی طاقت اور خانگی زندگی کی مصنوعی شرم و حیا میں جکڑی عورت کی سماجی زندگی کے طوفانوں، سیاست اور طبقاتی جدوجہد سے بے نیازی۔۔۔ان دونوں مظاہر کی جڑیں فرسودہ ماضی میں پیوست ہیں، جیسے مزارعت کے وقتوں میں دیہاتوں اور قصباتی گلڈز میں ہوتا تھا۔ان وقتوں میں تو اس کا جواز بھی موجود تھا اور یہ
ضروری بھی تھا۔ لیکن بادشاہت اور عورتوں کی حقوق سے محرومی کو تو سرمایہ داری کی ترقی نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا، پر یہ آج بھی اپنی بھونڈی ترین شکلوں میں موجود ہیں۔ مگر یہ آج بھی بس اس وجہ سے موجود نہیں ہیں کہ لوگ انھیں ختم کرنا بھول گئے تھے اور نہ ہی حالات کی سختی یا جمود کی وجہ سے۔ بلکہ یہ اس لیے موجود ہیں کہ یہ دونوں آج ان لوگوں کے مفادات کے ہتھیار بن چکے ہیں جو عوام کے دشمن ہیں۔ محنت کش طبقے کے استحصال اور غلامی کے بد ترین اور ظالم ترین وکیل تاج اور قتل گاہوں کے پیچھے مورچہ زن ہونے کے ساتھ ساتھ عورتوں کی سیاسی غلامی کے پیچھے بھی چھپتے ہیں۔ مطلق العنانی اور عورتوں کی حقوق سے محرومی کی حکمران سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی کے اہم ترین ہتھیار ہیں
1848ء سے قبل کے مطلق العنانی کے ’’خوبصورت‘‘ دور میں ایسا بھی وقت تھا کہ جب سارے محنت کش طبقے کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ اس کا سیاسی شعور ’’اتنا پختہ‘‘ نہیں کہ سیاسی حقوق سے بہرہ ور ہوسکیں۔ لیکن آج محنت کش خواتین کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ بارہا اپنی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ محنت کش خواتین کی پر جوش مدد کے بغیر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نہ 12 جنوری 1912ء کی شاندار کامیابی حاصل کر سکتی تھی نہ ہی چالیس لاکھ سے زائد ووٹ۔ کسی بھی قیمت پر، محنت کش طبقے کو عوام کے کامیاب انقلابی ابھار کے ذریعے اپنی سیاسی آزادی کے کے حصول کیلئے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا پڑتا رہا ہے۔ جب تخت پر براجمان ’مقدس ہستی‘ اور قوم کے نابغہ روزگار اور شرفا نے حقیقت میں محنت کش طبقے کے آہنی مکے اپنے آنکھوں کے سامنے لہراتے دیکھے اور ان کے گھٹنوں کو اپنے سینوں پر محسوس کیا تب جا کر ہی ان کو عوام کی سیاسی ’بلوغت‘ پر یقین آیا اور ایسا بجلی کے کوندے کی تیزی سے ہوا۔ آج یہ محنت کش خواتین کی باری ہے کہ وہ اس سرمایہ دارانہ ریاست کو اپنی سیاسی بلوغت سے باور کرائے۔ ایسا محنت کشوں کی جدوجہد اور دباؤ کے تمام حربے آزماتے ہوئے ایک مستقل اور طاقتور عوامی تحریک کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔
خواتین کا حق رائے دہی ہمارا مقصد ہے۔ لیکن اس مقصد کے حصول کیلئے درکار عوامی تحریک صرف خواتین کا فریضہ نہیں ہے، بلکہ یہ محنت کش مرد و خواتین کا مشترکہ طبقاتی فریضہ ہے۔ جرمنی میں خواتین کو سیاسی حقوق کی عدم دستیابی اس رجعت کی، جو عوام کی زندگیوں کو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہے، کی صرف ایک کڑی ہے۔ اور یہ رجعت کے دوسرے ستون یعنی بادشاہت کیساتھ بہت قریب سے جڑی ہوئی ہے۔ جدید سرمایہ دارانہ، صنعتی، بیسویں صدی کے جرمنی میں، بجلی، اور ہوائی جہازوں کے عہد میں، عورتوں کو سیاسی حقوق کی عدم دستیابی، تخت پر براجمان ’مقدس ہستی‘ کی طرح مردہ ماضی کی رجعتی باقیات ہے۔ کسی خدائی اختیار بطور سب سے اہم سیاسی طاقت اور خانگی زندگی کی مصنوعی شرم و حیا میں جکڑی عورت کی سماجی زندگی کے طوفانوں، سیاست اور طبقاتی جدوجہد سے بے نیازی۔۔۔ان دونوں مظاہر کی جڑیں فرسودہ ماضی میں پیوست ہیں، جیسے مزارعت کے وقتوں میں دیہاتوں اور قصباتی گلڈز میں ہوتا تھا۔ان وقتوں میں تو اس کا جواز بھی موجود تھا اور یہ
ضروری بھی تھا۔ لیکن بادشاہت اور عورتوں کی حقوق سے محرومی کو تو سرمایہ داری کی ترقی نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا، پر یہ آج بھی اپنی بھونڈی ترین شکلوں میں موجود ہیں۔ مگر یہ آج بھی بس اس وجہ سے موجود نہیں ہیں کہ لوگ انھیں ختم کرنا بھول گئے تھے اور نہ ہی حالات کی سختی یا جمود کی وجہ سے۔ بلکہ یہ اس لیے موجود ہیں کہ یہ دونوں آج ان لوگوں کے مفادات کے ہتھیار بن چکے ہیں جو عوام کے دشمن ہیں۔ محنت کش طبقے کے استحصال اور غلامی کے بد ترین اور ظالم ترین وکیل تاج اور قتل گاہوں کے پیچھے مورچہ زن ہونے کے ساتھ ساتھ عورتوں کی سیاسی غلامی کے پیچھے بھی چھپتے ہیں۔ مطلق العنانی اور عورتوں کی حقوق سے محرومی کی حکمران سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی کے اہم ترین ہتھیار ہیں
Rosa Luxemburg:
Women's right and class struggle
May 12, 1912:
Speaking on the occasion of second social Democratic women's rally
The capitalist
state (worker) has failed to keep women from all the duties and efforts of
political life. Step-by-step (in the result of struggle) the state was forced
to actually force them to give the right to the union and assembly rights. Now
women are deprived of only the last political right: the right to vote in the
direct administration and the legislation and the right to choose their
representatives and members of their institutions. But like other parts of the
society, the slogan here is the same as "Do not let things start in the
end" but things have started. The present state has to knee when it had to
accept women's participation in public assemblies and political associations.
And the state had not given this (right) voluntary, but also the increasing
pressure of the working class. The effect was necessary. It was the increasing
pressure of the hard-working women's struggle for women, who had to face Prasu
Jammu, like a police state, had to eliminate the famous 'women's place for
women' in political associations, and have to do more for women's political
organizations. Then the situation has changed rapidly. Women's rights have also
brought in political outburst of incredible victories of the class struggle of
the working class. Women working using their right to union and assembly rights
took full part in parliamentary life and election campaigns. This is an
indispensable and logical consequence of the movement that millions of working
women today listen to this slogan with a very self-esteem in a rebellious
manner: "We should give a right".
Before the time
of 1848, the "beautiful" era "Alamani" was also a time when
it was said about all the hard working class that its political consciousness
is not "so strong" that it can turn away from political rights. . But
today it can not be said about working women because they have repeatedly
demonstrated their political maturity. Everyone knows that without the support
of working women, the Social Democratic Party could not achieve a great success
of January 12, 1912, or more than 40 million votes. At any cost, the
achievement of the political class through its successful revolutionary roles
of the masses There is a need to demonstrate political puberty. When on the
throne, 'holy entity' and the employment and charity of the nation saw the fact
that the mass of the working class saw waves in front of their eyes and felt
their knees on their breasts, It is believed in 'puberty' and it was faster for
electricity. Today, it is hard to turn women into believing that they can trust
this capitalist state with their political instincts. Such a struggle can be
done through a steady and powerful public movement by trying all the stresses
of the struggle and stress.
Our goal is to
give women the right. But for the purpose of achieving this goal, the public
movement is not just a duty of women, but it is a common class of working men
and women. Women in Germany have no access to political rights, just a link to
the rationale, which is binding in the public's lives. And it is closely linked
to the second pillar of the ritual or the kingdom. Modern capitalist,
industrial, in Germany, in the twentieth century, in terms of electricity, and
airplanes, women lack of political rights, the deadly past remains like the
'holy entity' on the throne. In the artificial embarrassment of the most
important political power and family life as a Khadav, the unnecessary
tensions, politics and class struggle of the social life of a woman, ... the
roots of these two phenomenon are striking in the past, such as Mazar During
the time the villages and towns were found in the gulf. At present they had its
license and it
It was also
necessary. But the growth of capitalism and women's rights had sprunged the
root, but it is still present in their tiny formats. But this is not available
just because of today that people had forgotten to finish them, nor due to the
hardship or conditions of the situation. But it is because they both have
become the weapons of interest in the people of the people today. The worst and
cruel lawyers of the exploitation and slavery of the slavery are hidden behind
the crown and killings as well as behind the political slavery of women. With
absolute freedom and women's rights The rulers of deprivation are the most
important weapon of the capitalist class rule
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP