Women's right and class struggle - second social Democratic women's rally - Part 3 - Haripur Today

Breaking

Sunday 24 June 2018

Women's right and class struggle - second social Democratic women's rally - Part 3



 حصہ سوئم
روزا لکسمبرگ:خواتین کا حق رائے دہی اور طبقاتی جدوجہد



12مئی 1912ء :دوسری سوشل ڈیموکریٹک خواتین کی ریلی کے موقع پر خطاب
(ترجمہ۔ تصور ایوب)
حقیقت میں ریاست ووٹ کا حق صرف محنت کش خواتین ہی سے دور رکھنا چاہتی ہے۔ اور ان کا خوف بجا ہے کہ وہ ( محنت کش خواتین) طبقاتی حکمرانی کے روایتی اداروں کیلئے خطرہ بن جائیں گی، مثال کے طور پر عسکریت پسندی( جس کی کوئی بھی باشعور محنت کش خاتون سوائے دشمن کے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتی)، مطلق العنانیت، کھانے پینے کی اشیاء پر ڈیوٹی اور ٹیکس کی منظم چوری وغیرہ۔ خواتین کا حق رائے دہی موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست کیلئے خوف اور بھیانک خواب ہے کیونکہ اس کے پیچھے وہ لاکھوں خواتین کھڑی ہیں جو ان کے دشمن انقلابی سوشل ڈیموکریسی کو مضبوط کریں گی۔ اگر یہ حکمران طبقہ کی خواتین کے ووٹ کا معاملہ ہوتا تو سرمایہ دار ریاست کو اس سے کوئی مسئلہ نہ ہوتا کیونکہ ان کی مدد سے وہ رجعت کی موثر حمایت حاصل کر سکتے تھے۔ بہت سی بورژوا خواتین جو ’’مردانہ استحقاق‘‘ کے خلاف شیرنیوں کی طرح دھاڑتی نظر آتی ہیں، انھیں اگر ووٹ کا حق مل جائے تو وہ بھاگ کر فرمانبردار بھیڑوں کی طرح قدامت پرست اور مذہبی رجعتی کیمپوں میں جاتی ہوئی نظر آتیں۔بلاشبہ وہ اپنے طبقے کے مردوں سے زیادہ رجعتی ثابت ہوتیں۔ سوائے چند ایک کہ جو کسی کام یا پیشے سے منسلک ہیں، بورژوا طبقے کی خواتین سماجی پیداوار میں حصہ نہیں لیتی۔ وہ اپنے مردوں کی محنت کشوں سے کشید کردہ قدر زائد کی صارف کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ وہ سماج کے طفیلیوں کی بھی طفیلیاں ہیں۔ اور صارف عام طور پر بطور طفیلیہ اپنے ’’حق‘‘ کے دفاع میں، طبقاتی حکمرانی اور استحصال کے بلاواسطہ اداکاروں سے زیادہ خطرناک اور ظالم ثابت ہوتے ہیں۔ تمام عظیم انقلابی جدوجہدوں کی تاریخ نہایت خوفناک انداز میں اس امر کی تصدیق کرتی ہے۔ عظیم فرانسیسی انقلاب کی ہی مثال لے لیں۔ جیکوبنز کی ہار کے بعد جب رابسپئیر کو زنجیروں میں جکڑے پھانسی گھاٹ کی طرف لیجایا جا رہا تھا تو فتح کے نشے میں دھت ننگی ویشیا بورژوا خواتین گلیوں میں ناچ رہی تھیں اور انقلاب کے ہیرو کی نعش کے گرد بے شرم ناچ جاری تھا۔ اور 1871 میں پیرس میں جب عظیم پیرس کمیون کو مشین گنوں سے شکست دے دی گئی تو محنت کش طبقے سے خونی بدلہ لینے کی دوڑ میں پاگل بورژوا خواتین اپنے پاگل ترین مردوں سے بھی آگے نکل گئیں۔ ملکیت رکھنے والے طبقے کی خواتیں ہمیشہ پاگل پن کی حد تک استحصال اور غلامی کا دفاع ہی کریں گی کیونکہ اس میں ہی وہ اپنے بیکار سماجی وجود کی بقا کے ذرائع تلاش کرتی آئی ہیں۔
معاشی اور سماجی طور پر، استحصالی طبقات کی خواتین آبادی کا کوئی آزاد و خود مختار حصہ نہیں ہوتیں، ان کا واحد سماجی فریضہ حکمران طبقے کی نئی نسل کو جنم دینا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف محنت کش طبقے کی خواتین معاشی طور پر آزاد ہوتی ہیں۔ وہ اپنے مردوں کی طرح سماج کیلئے مفید ہوتی ہیں۔ اس سے میری مراد بچے پالنا اور گھر کے دوسرے کام نہیں جن کی وجہ سے ان کے مرد اس قابل ہوتے ہیں کہ باہر جا کر معمولی اجرت پر مزدوری کر سکیں، اس قسم کا کام موجودہ سرمایہ دارانہ سماج کے قوانین میں ہرگز مفید نہیں خواہ اس کیلئے کتنی ہی محنت اور قربانی کیوں نہ دی گئی ہو۔ یہ ایک نجی نوعیت کا ہی کام ہے، اس وجہ سے یہ موجودہ سماج کیلئے وجود نہیں رکھتا۔جب تک سرمایہ داری اور اجرت پر مبنی سماجی نظام کی حکمرانی ہے، اس کام کو ہی مفید گردانا جاتا رہے گا جو قدر زائد تخلیق کرتا ہو اور جو منافع پیدا کرتا ہو۔ اس نکتہ نظر سے کسی کلب کی ڈانسر، جس کی ٹانگوں کی حرکت کلب کے مالک کی جیب میں منافع جمع کرتیں ہیں، ایک مفید ورکر ہے، جبکہ محنت کش طبقے کی خواتین اور مائیں، جو گھر کی چار دیواری میں رہیں، غیر مفید ہیں۔ سننے میں یہ بہت ظلم اور پاگل پن لگتا ہے لیکن یہ ظلم اور پاگل پن تو موجودہ سرمایہ دارانہ معیشت کا خاصہ ہیں۔ اور اس ظلم اور پاگل پن کو دیکھنا اور محسوس کرنا محنت کش طبقے کی خواتین کا اولین فریضہ ہے۔
اس لیے اس نکتہ نظر سے محنت کش خواتین کا یکساں سیاسی حقوق کے حصول کا نعرہ، مضبوط معاشی مطالبات کی زمین میں پیوست ہے۔ آج مردوں کی طرح لاکھوں محنت کش خواتین فیکٹریوں، ورکشاپوں، فارمز، گھریلو صنعت ، دفتروں اور سٹورز میں کام کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ منافع پیدا کرتی ہیں۔ وہ موجودہ سماج میں مفید ہونے کی سخت ترین سائنسی تعریف پر پورا اترتی ہیں۔ صنعت اور تکنیک میں ہونے والی ہر نئی ترقی خواتین کیلئے سرمایہ داروں کے منافع کیلئے نئے در کھول دیتی ہے۔اور نتیجتاًصنعتی ترقی کا ہر قدم اور ہر دن خواتین کے یکساں سیاسی حقوق کی بنیاد کو مضبوط کرتا جاتا ہے۔ خواتین کی تعلیم اور ذہانت خود معاشی عمل کیلئے ضروری ہو گئی ہے۔ پدر سری خاندانی نظام کی تنگ نظر اور پسماندہ خواتین آج بھی صنعت اور اقتصادیات کے ساتھ ساتھ سیاست کی اہمیت کو بھی جھٹلاتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست نے اس شعبہ میں بھی اپنے فرائض کو نظر انداز کیا ہے۔ ابھی تک یہ یونینز اور سوشل ڈیموکریٹک تنظیمیں ہی ہیں جنھوں نے خواتین کی شعوری اور اخلاقی تربیت کیلئے بہت کچھ کیا ہے۔ حتیٰ کہ دہائیوں پہلے بھی سوشل ڈیموکریٹس قابل اور ذہین جرمن ورکروں کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بالکل اسی طرح آج یونینز اور سوشل ڈیموکریسی نے محنت کش خواتین کو ان کے قیدی اور تنگ وجود سے بلند کیا ہے اور گھر سنبھالنے کے جھنجھٹوں سے آزادی دلوائی ہے۔ محنت کش طبقے کی طبقاتی جدوجہد ان کے دائرہ کار کو وسعت دی ہے، اس نے ان کے اذہان کو لچکدار بنا دیا ہے، ان کی سوچ کو ترقی دی ہے اور انھیں ان کی کوششوں کے نتیجہ میں عظیم مقاصد کے حصول کی راہ دکھلا دی ہے۔ سوشلزم کے نظریہ نے محنت کش خواتین کے اذہان میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ہے اور بلاشبہ اس عمل نے ہی ان کو سرمایے کیلئے مفید ورکر بننے کے قابل بنایا ہے۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے محنت کش خواتین کے سیاسی حقوق کی کمی نا انصافی کی بدترین شکل ہے اور ایسے وقت میں جب وہ سیاسی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لے رہی ہیں۔ تاہم سوشل ڈیموکریسی لفظ ’’نا انصافی‘‘ کو بطور دلیل استعمال نہیں کرتی۔ یہ ہم میں اور پہلے کی جذباتی، خیالی سوشلزم میں بنیادی فرق ہے۔ ہم حکمران طبقے کے ’’انصاف‘‘ پر انحصار نہیں کرتے بلکہ صرف اور صرف محنت کش طبقے کی انقلابی قوت اور سماجی عمل کے اس رستے پر انحصار کرتے ہیں جو اس عظیم طاقت (کے اظہار) کیلئے حالات تیار کرتی ہے۔لہٰذا ’’نا انصافی‘‘ اپنے آپ میں وہ دلیل نہیں ہے جس کی مدد سے موجودہ رجعتی اداروں کو گرایا جاسکے۔ جیسا کے عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے کہا تھا کہ اگر سماج کے وسیع حصوں میں نا انصافی پر مبنی جذبات ابھر رہے ہیں تو یہ اس امر کا واضح اشارہ ہے کہ سماج کی معاشی بنیادیں اپنی جگہ سے ہل چکی ہیں اور موجودہ صورتحال ترقی کے سفر میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ لاکھوں محنت کش خواتین کی اپنے سیاسی حقوق سے محرومی کے خلاف غم و غصہ اس حقیقت کا واضح اشارہ ہے کہ موجودہ نظام کی سماجی بنیادیں فرسودہ ہوچکی ہیں اور اس کے دن گنے جا چکے ہیں۔
ایک سو سال پہلے اشتراکی اقدار کے پہلے پیغمبروں میں سے ایک چارلس فوریئر نے یہ تاریخی الفاظ لکھے تھے کہ کسی بھی سماج میں خواتین کی آزادی عمومی آزادی کا قدرتی پیمانہ ہوتا ہے۔ یہ ہمارے موجودہ سماج کیلئے مکمل طور پر درست ہے۔ خواتین کے یکساں سیاسی حقوق کے حصول کیلئے موجودہ عوامی تحریک، محنت کش طبقے کی آزادی کی عمومی لڑائی کے اظہار کے سوا کچھ بھی نہیں، اسی میں اس کی طاقت اور مستقبل پوشیدہ ہے۔ کیونکہ محنت کش خواتین کا حق رائے دہی کا حق، محنت کش طبقے کی طبقاتی جدوجہد کو مزید تیز اور شدید کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بورژوا معاشرہ خواتین کے حق رائے دہی سے خوف بھی کھاتا ہے اور نفرت بھی کرتا ہے۔اور یہی وجہ ہے کے ہم اسے چاہتے ہیں اور حاصل کر کے ہی رہیں گے۔ خواتین کے حق رائے دہی کی لڑائی میں ہم اس تاریخی وقت کو بھی قریب لائیں گے جب پرولتاریہ کی انقلابی طاقت کے ہتھوڑوں کی زد میں آکر موجودہ سماج ٹوٹ کر تحلیل ہو کر رہ جائے گا


Rosa Luxemburg: Women's right and class struggle
May 12, 1912: Speaking on the occasion of second social Democratic women's rally
In fact, only the women who want to vote for the state vote, want to keep away from it. And they are afraid that they (hard working women) will become a threat to the traditional government's classical institutions, for example militancy (which can not be anything more dangerous than the working woman) Absolute immunity, duty on food items and duty of tax evasion etc. Women's right to fear is a fierce dream for the present capitalist state because millions of women are standing behind it, which will strengthen their enemy's revolutionary social democracy. If it was a matter of women's vote for the ruling class, the capitalist state did not have any problem because with its help they could have effective support for regression. Many bourgeois women who look like a loneliness against the "legitimate privilege", if they get the right to vote, then they run away from obedient leaders like sheep in conservative and religious reappearance camps. Of course they Be more relevant to your class men. Except a few people who are attached to work or profession, women of the bourgeoisie do not participate in social production. They are nothing more than the value of the stress of their men's stresses. They are also the problems of social security. And users are generally dangerous and cruel in defending their "right", more than indirect actors of class rule and exploitation. The history of all the great revolutionary struggles confirms this in an awesome manner. Take the example of the Great French Revolution. After Jacobson's defeat, when Ripperier was being sent to the pane hanging in chains, the naked bourgeois women in the drunkard of dance were dancing and the dancing was continuing around the slogan of revolutionary hero. And when the Great Paris community was defeated by machine guns in Paris in 1871, then crazy bourgeois women went out of their crazy men in the race for bloody revenge from the working class. Real estate classrooms will always be exploited and defend slavery as they have found sources of survival of their useless social existence.
In social and social, exploitation classes do not have a free and independent part of the population, their sole social duty is to give birth to a new generation of ruling class. In contrast to this, women of the working class are freely liberated. They are useful for society like their own men. This means that I do not want to have children and other household work because of which their men are able to work on minor wages by going out, this kind of work is not always useful in the rules of current capitalist society, Why not work hard and sacrificed for it. It is a private type of work, therefore it does not exist for the present society. As long as there is a rule of socialism based on capitalism and wage, this work will continue to be useful, which creates value and Which make profits. From this point of view, a club's danceer, whose legs are accustomed to collecting profits in the club's pockets, is a useful worker, while women and mothers of the working class, who stay at the four walls of the house are unusable. . It seems very cruel and insane in listening, but these cruelty and madness are especially the current capitalist economy. And to see and feel this cruelty and madness women are the first duty of the working class.
Therefore, the point of view of achieving equal political rights of working women with this point is strong in the land of strong economic demands. Today, millions of working women like men, make profitable profits working in factories, workshops, farms, domestic industries, offices and stores. They meet the fastest scientific definition of being useful in the present society. Every new development in industry and technology opens new doors for the benefit of investors for women. And consequently, the strength of women's equal rights is strengthened every step and every day. Women's education and intelligence have become essential for the economic process itself. Tight and backward women of Padar Sri family system still deny the importance of politics as well as industry and economics. It is true that the capitalist state has ignored its duties in this sector too. So far it is the union and social Democratic organizations that have done a lot to women's awareness and moral training. Even decades ago, Social Democrats were known as skilled and intelligent German workers. In the same way today, the Union and Social Democracy have raised the hard working women from their captivity and narrow existence, and freedom from the concerns of handling the house. The class struggle of the working class has expanded their scope, has made their ideas flexible, their thinking has developed and their efforts have led to the great goal of achieving them. . The socialism theory has spread the new soul of life in the afflicted women of women, and of course this process has enabled them to become a useful worker for the capital.
Keeping in mind all these things, the lack of women's political rights is the worst form of injustice and at times when they are taking part in political process. However, the social democracy word does not use "injustice" as an argument. This is the main difference between us and the earlier emotional, fierce socialism. We rule


No comments:

Post a Comment

Thank you for contacting us, we will response ASAP

Pages