امر خانAmar Khan
ایک ایسا بے بس بچہ جو معذوری کے باوجود جنگ لڑتا رہا اور بالآخر عزت اور شہرت کی بلندیوں تک جا پہنچا۔
یہ آٹھ اکتوبر کی صبح تھی، سردیوں کا آغاز تھا اور موسم میں تیزی سے تبدیلی رونما ہورہی تھی۔ امرخان بھی آج پھر نئے جذبوں کے ساتھ سکول پہنچا تھا۔ وہ حیات آباد پشاور کے ایک مشہور سکول میں زیرتعلیم تھااور اپنی محنت سے نویں کلاس تک پہنچ گیا تھا۔ اس وقت وہ یہی سوچ رہا تھا کہ آج کے مسائل عارضی ہیں۔ آج کی مشکلات ہی کل کو میری زندگی میں آسانیاں پیدا کریں گی۔ اپنی بھاری بھر کم ویل چئیر کے ساتھ چھٹے فلور تک کا سفر اُس کے لئے روزہی مشکل ترین سفر ثابت ہوتا تھا۔ اکثر وہ بڑی بے بسی محسوس کرتا۔ اُسے اپنی زندگی دنیا کا سب سے بڑا بوجھ محسوس ہوتی بلکہ کبھی کبھارتو اُس کے دل میں یہ خیال بھی آتا کہ بس کردے، اس زندگی کو تیاگ دے، اس دنیا سے منہ موڑ لے۔ لیکن کچھ کرنے کی تمنا،کچھ بن دکھانے کا جنون،اُسے ایک نیا حوصلہ دیتا۔ یہ جذبہ اُس کی آنکھوں میں چمک پیدا کردیتا اور وہ مضبوط ارادوں اور بلند حوصلے سے دل میں دہراتا۔
”جینا ہے اور جی کردکھانا ہے“
وہ ابھی اپنے خیالوں پر مُسکرانے ہی لگا تھا کہ یکدم چونکا۔ ہر کوئی حواس باختہ ہوکر باہر کو بھاگ رہا تھا۔ جب تک اُسے یہ بات سمجھ آئی کہ یہ شدید زلزلہ ہے وہ سکول کی اس چھٹی منزل پر اکیلا رہ چکا تھا۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور اللہ کو پکارنے لگا۔ اسی کشمکش میں اُسے بچپن کا وہ دن یاد آیا جب وہ اپنے پاؤں بیڈ سے لٹکا کر بیٹھا تھا اور نچلا دھڑ بے حس ہونے کی وجہ سے وہ جان ہی نہیں پایا تھا کہ کب اُس کے پاؤں کے تلوے مکمل جل گئے۔
اچانک دوسرا شدید جھٹکا لگا اور اسے محسوس ہوا کہ وہ عمارت سمیت زمین بوس ہوجائے گا۔ اس نے پھر آنکھیں بند کرلیں۔وہ جینا چاہتا تھا اور بے پناہ مشکلات کے باوجود دنیا کو کچھ کرکے دکھانا چاہتا تھا۔ اُس نے اس چھوٹی سی عمر میں بے شمارسپنے اپنی آنکھوں میں سجا لئے تھے۔ اُس نے سوچا اگر آج میں بچ گیا تو یقینا کسی بڑے مقصد کے لئے ہی بچایا جاؤں گا۔
اللہ نے اُس کے عزم اور ولولے کے طفیل ہی شاید اُسے نئی زندگی دی۔ جس زلزلہ میں لاکھوں لوگ زندگی گنوا بیٹھے وہ ویل چئیر پر بھی محفوظ رہا۔ اس حادثے نے اُس کے حوصلے مزید بلند کئے اور اُس نے دوگنی محنت شروع کردی۔ میٹرک تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُسے پشاور کے مشہور کنگ ایڈورڈ کالج میں داخلہ مل گیا جہاں اُسے حوصلہ دینے والے دوستوں کا ساتھ بھی ملا اور بہترین اساتذہ بھی اور اس بلند حوصلہ لڑکے نے بھی کالج کے سالوں میں ثابت کیا کہ وہ قابلیت اور ذہانت میں کسی سے بھی کم نہیں ہے۔
پشاور یونیورسٹی میں اُس کا پہلا دن لوگوں کو ملتے ہوئے اور تعارف کراتے گزرگیا۔ وہ سب کی نظریں پہچانتا تھا، اُسے ہر احساس کی پہچان تھی اور وہ حیران تھا کہ یونیورسٹی لیول پر بھی وہی سکول لیول کی مشکلات اُس کی منتظر تھیں۔ اُس کی پہلی ہی کلاس دوسری منزل پر تھی اور سیڑھیاں پھر سے اُس کی ویل چئیر کا منہ چڑا رہی تھیں۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر کیوں معاشرہ خود رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ اگر یہ لوگوں کے لئے سیڑھیاں بنا سکتا ہے توہمارے لئے ریمپز کیوں نہیں۔ لیکن یہ سب وقتی خیالات تھے۔ اُس نے اپنا وقت ایسی چیزوں میں برباد نہیں کرنا تھا کہ ”آخرکیوں“ اور ”کس وجہ سے“۔
اُس نے عہد کیا کہ وہ ”فقط کیسے“ پر کام کرے گا۔ ہر چیز پر پریشان ہونے کے بجائے اپنا وقت اس کا حل تلاش کرنے میں صرف کرے گا۔ اسی مثبت رویے نے چند ہی دنوں میں سب کو اُس کا گرویدہ بنا دیا اور وہ بی ایس ٹیکنالوجی مکمل کرنے کے بعد ایم بی اے کرنے میں بھی کامیاب رہا۔
اب قسمت نے اُسے اس کی محنت کا صلہ دینا شروع کیااور بالآخر وہ بڑی تیز رفتاری سے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔ وہ میرٹ پر کے پی کے نیشنل یوتھ اسمبلی کا ممبر بنا اور اس کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے بہت جلد اُسے یوتھ منسٹر برائے خصوصی افراد بنا دیا گیا۔ پھر کچھ ہی عرصے کے بعد اپنی قابلیت کا لوہا منواتے ہوئے سینکڑوں افراد سے مقابلے کے بعد وہ نیشنل یوتھ اسمبلی کا گورنر منتخب ہوا۔
امرخان آج کے پی کے کی ہر یونیورسٹی میں خصوصی مقرر کی حثیت سے جاتا ہے، لوگ اس کی کامیابی کی کہانی جان کر اپنے اندر نیا جوش اور ولولہ محسوس کرتے ہیں۔ امر خان کو بے شمار اعزازات سے نوازا گیا، انہیں ہیلتھ فاؤنڈیشن کے پی کے کی جانب سے گولڈ میڈل دیا گیا، نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے ینگ بک ایمبیسڈر کا ایوارڈ دیا گیا، سنٹرفاراویرنیس ٹریننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی جانب سے یوتھ ایمبیسڈر کا ایوارڈ، ایپریسی ایشن ایوارڈ فرام نیشنل یوتھ اسمبلی، خیبرسٹار پیس ایوارڈان کے علاوہ تھے۔ آج امرخان اپنے والدین کے لئے باعث فخر ہے اور وہ سینہ تان کر بتاتے ہیں کہ یہ ہمارا بیٹا ہے۔ آج لوگ اس کی معذوری کو نہیں اس کی کامیابیوں کو جانتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کیسے ایک بے بس بچہ اپنی معذوری سے جنگ لڑتے ہوئے عزت اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچا۔ آپ اُس کی ہمت اور حوصلے کی اگر داد نہیں دے سکتے تو کوئی بات نہیں لیکن آپ اُس کی زندگی سے سبق لے اور دے تو سکتے ہیں۔
دنیا میں آگے بڑھنے والے ہر انسان کی راہ میں لاتعداد مشکلیں پیش آتی ہیں۔ لیکن منزل واضح ہوتو حوصلے بلند رہتے ہیں اور جب حوصلے نہ ٹوٹیں تو منزلیں یقینی ہوتی ہیں۔ آئیے کبھی حوصلہ نہ توڑنے کا عہد کریں۔ آئیں عہد کریں حوصلہ بنیں گے، اُمید بنیں گے اور اپنی زندگی میں ہمیشہ آسانیاں بانٹیں گے۔ اس وطن کے بے شمار بچوں کو ابھی’امر‘ہونا ہے۔ جس طرح امرخان نے عظیم کامیابی کا سفر ناممکن سے ممکن کی جانب کیا تھا اُسی طرح یہ سفر آپ کے قدموں کا منتظر ہے۔
”جب تک آپ کو خود جینا نہیں آتا آپ جینے کا ہنر نہیں سکھاسکتے“
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP