شادی بیاہ سادگی سے ہو یا دھوم دھام سے
شادی بیاہ کی خوش گوار تقریبات صرف دولہا، دولہن ہی کے لئے نہیں، بلکہ خاندان بھر کے لئے خوشی و شادمانی کا باعث ہوتی ہیں۔ نئے جوڑے کے لیے یہ ایک نئی زندگی کا آغاز ہے، تو والدین کے لئے خوشی کا باعث ہے کہ وہ اپنی اہم ذمے داری سے عہدہ برآ ہوجاتے ہیں۔ بے شک وقت پر اچھے اور مناسب رشتے ملنا قسمت کی بات ہے۔ تمام والدین کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ بیٹی کی تعلیم مکمل ہوتے ہی یا تعلیم کے آخری مراحل میں کوئی موزوں رشتہ آجائے تو وہ جلد اُس کے ہاتھ پیلے کردیں۔ جب کہ بیٹوں کے معاملے میں تعلیم کی تکمیل کے بعد برسرروزگار ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ مگر جوں ہی وہ معاشی طور پر مستحکم ہوتا ہے۔ والدین اُس کے سر پر بھی سہرا دیکھنے کو بے چین ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر ہمارے یہاں شادی بیاہ کے معاملات اتنے سادہ اور آسان نہیں ہیں۔ بڑی تگ و دو اور چھان بین کے بعد شادی طے ہونے کا مرحلہ آتا ہے۔ خصوصا روایتی گھرانوں میں، جہاں خاندان سے باہر شادی کا رواج ہی نہیں۔ جوڑ کا رشتہ مل جانا بھی غنیمت ہے اس کے بعد بھی ہر طرح کی چھان پھٹک کی جاتی ہے۔ حق مہر، لین دین اور رسوم ورواج کے حوالے سے کئی معاملات طے کئے جاتے ہیں، تب کہیں جا کر تین بار قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ویسے بھی یہ سب کچھ عموما والدین اور بزرگوں کے درمیان میں ہی نمٹا لئے جاتے ہیں۔ جن کی شادی ہورہی ہو، انہیں مداخلت کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی انہیں اس کی اجازت دی جاتی ہے۔ لیکن! بدلتی ہوئی دنیا میں حالات کے ساتھ بہت کچھ بدلا ہے، اب بہت سی جگہوں پر بچے ازخود بھی شریک سفر کا انتخاب کررہے ہوتے ہیں۔ اور عقل مند والدین اس صورت میں بھی بچوں اور اُن کی خوشیوں کی راہ میں حائل نہیں ہوتے۔ ذیادہ پس وپیش کرنے کی بجائے چاہتے، نہ چاہتے ہوئے بھی رسما لڑکی یا لڑکے کو دیکھنے کے بعد اپنی رضامندی ظاہر کردیتے ہیں۔ یوں دو خاندانوں کی باہم رضامندی کے ساتھ شادی کی تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں۔ ابتدا ایک دوسرے کو مٹھائی کھلا کر انگوٹھیوں کے تبادے سے کی جاتی ہے۔ پھر اگلے مرحلے میں تاریخ اور جگہ کا انتخاب ہوتا ہے، بعدازاں، میرج ہال اور اسٹیج کی جدید تزئین و آرائش، اسٹارٹر اور کھانے کی ڈشز، مہمانوں کی تعداد، دعوت ناموں کی چھپوائی، تقسیم، دولہا، دولہن کے ملبوسات اور دیگر سامان کی خریداری جیسے معاملات اہل خانہ کی مصروفیت کو کم نہیں ہونے دیتے۔شادی ایک مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی فریضہ ہے، جسے وقار اور سادگی سے انجام دیا جائے تو ذیادہ بہتر ہے۔ اللہ کے نبی کریم ﷺ نے کم خرچ والی شادی کو بابرکت کہا ہے۔ اسلام میں نکاح، مہر کی ادائی اور ولیمے کی تقریب پر مشتمل ہے۔ ساتھ ہی خوشی کے اظہار کے لئے چھوٹی بچیوں کو ہلکے پھلکے گیت گا کر، دف بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرنے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ فی زمانہ، جو کچھ شادی بیاہ کی تقریبات کے نام پر ہورہا ہے اس کی قطعا کوئی گنجائش نہیں، پھر بھی اگر زمانے کے ساتھ چلنے کا شوق دامن گیر ہے، ہلا گلا کرنا مقصود ہے، مہندی اور مایوں کی رسمیں اچھی لگتی ہیں۔تو پیلا جوڑ ا اور ہری چوڑیاں ضرور پہنیں، دھنک رنگ بھی بکھریں لیکن حیااور اخلاقی قدروں کا دامن ہر گز ہر گز نہ چھوڑیں۔ جو ہماری تہذیب اور معاشرت کا بنیاد ہیں۔ ان کا خاص خیال رکھیں۔ دلہن کے لباس اور میک اپ میں فیشن کا جدید انداز بجا، لیکن سترپوشی اور حیا کا خیال بھی لازم ہے۔ پھر کچھ عرصے سے جس طرح دولہا دولہن کی تصاویر اور مووی بنانے کا رواج عام ہوا ہے وہ تو کسی طور پر مناسب نہیں۔ باشبہ تہذیب واخلاق کے دائرے میں رہ کر مسرت کا اظہار کرنے میں ہر گز کوئی قباحت نہیں مگر خدارا! شادی کی تقریبات کو فلم کی شوٹنگ نہ بنائیں۔ اسے شادی ہی رہنے دیں۔ نیز محض خوشی منانے کی خاطر اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کرنا، رقص وسرور کی محفلیں سجانا انتہائی غیرمناسب عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناراض کرنے کے مترادف ہے۔
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP