سید سردار احمد پیرذادہ
پاکستان کے پہلے نابینا صحافی کی لازوال کامیابیوں کی عظیم داستان
پاکستان میں کسی معذوری کے باوجود کامیابیوں کی رسم ڈالنے والے اور نئے شعبوں میں داخل ہونے والی نئی شخصیات کا نام آئے تو سید سردار احمد پیرذادہ کا نام سرفہرست آتا ہے۔ وہ جو پچھلے کئی سالوں سے بغیر تھکے اس ملک کے لوگوں کے لیئے آگاہی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے عظیم شخص کی جو ہر روز نئی محبتیں اور نئے حوصلے بانٹتا ہے۔ سید سردار احمد پیرذادہ اردو زبان میں پاکستان کا پہلا نابینا صحافی ہے۔ وہ دانشور، تجزیہ و کالم نگار، ایڈیٹر اور ریڈیو، ٹی وی کے اینکر پرسن بھی ہے۔ پیرذادہ صاحب جوہر آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے عام سکولوں سے تعلیم حاصل کی اور غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ انہوں نے کالج تک کی تعلیم بھی جوہرآباد سے مکمل کی۔ کالج میں سردار صاحب نہ صرف اپنی کلاس کے مانیٹر تھے بلکہ یونین کے صدر، ایڈیٹر، اقبال سوسائٹی کے سیکرٹری اور سوشل ورک سوسائٹی کے صدر بھی تھے۔ 1986ء میں پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں اعلی نمبروں سے گریجویشن کو مکمل کیا۔ اور جرنلزم کو باقاعدہ کیئرئیر کے طور پر اپنا لیا۔ آپ نے روزنامہ جنگ، جسارت، مشرق، نوائے وقت اور ہفتہ وار استقبال جیسے اخباروں میں لکھنا شروع کیا۔ اور آپ انگریزی ماہنامہ کے بھی ایڈیٹر بنے۔ 1988ء میں نیشنل لینگویج سوسائٹی کے پبلک ریلیشن آفیسر منتخب ہوئے۔ 2003سے لے کر2010ء تک اردوزبان کے ایڈیٹر بھی رہے۔
اپنی محنت اور تجربہ کی بنیاد پر انہوں نے 2001ء میں ایک تنظیم بنائی جس کا نام ریسرچ اینڈ انفارمیشن امپوریم رکھا۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک مختلف تنظیم تھی جس میں نہایت قابل لوگوں کا انتخاب کیا گیا۔ جنہوں نے دن رات کی محنت سے اس کو اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔
سید سردار احمد کے سامنے کوئی رول ماڈل ایسا نہیں تھا جو نابینا ہونے کے باوجود اس شعبہ میں آیا ہو۔ آپ پاکستان کے پہلے جرنلسٹ ہیں جو باقاعدہ تعلیم مکمل کرکے اس شعبہ میں آئے۔ شروع میں لوگوں نے انہیں اس شعبہ میں تسلیم کرنے میں مزاحمت دکھائی لیکن اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر بہت جلد ہی انہوں نے اپنے پہچان خودبنالی۔ اور اپنی کارکردگی ہی کی بنا پر ہر جگہ خود کوتسلیم کروایا۔
آپ روزنامہ نوائے وقت میں باقاعدگی سے ملکی اور عالمی مسائل پر لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ ریڈیو اور ٹی وی اینکرپرسن کے طور پر کام کرتے ہیں۔ لوگوں سے بات چیت کا شوق انہیں بچپن سے ہے، اور اس شوق کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ مختلف اداروں میں لیکچر بھی دیتے ہیں۔
ان کی زندگی کی کہانی بے شمار نشیب و فراز پر مشتمل ہے لیکن اُن کی محنت اور مستقل مزاجی نے انہیں ہزاروں مشکلات کے باوجود پاکستان کے اعلیٰ درجے کے جرنلسٹ میں لاکھڑا کیا ہے۔ بینائی سے محرومی کو انہوں نے کبھی اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ ان کے بارے میں مشہور کالم نگار جاوید چوہدری لکھتے ہیں کہ ”پیرزادہ صاحب پہلے شخص تھے جنہوں نے مجھے کالم لکھنے کی ترغیب دی، وہ میری راہنمائی بھی کرتے تھے اور حوصلہ افزائی بھی۔ میں آج کالم نگار ہوں تو اس کی پہلی اینٹ اللہ تعالیٰ کے بعد سردار پیرذادہ نے رکھی تھی“۔
وہ نہ صرف اپنے شعبے میں کامیاب رہے بلکہ اپنے رفاعی کاموں کی وجہ سے بھی ایک مقام رکھتے ہیں۔ اپنے جیسے افراد کی مدد کے لئے وہ ہر وقت پیش پیش رہتے ہیں۔ وہ خصوصی افراد کے حقوق کی جنگ کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ان سے متعلق آگاہی پیدا کرنے میں بھی بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔ خصوصی افراد کی فلاح وبہبود کے لئے بھرپور عملی کوششوں کو انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنا رکھا ہے۔
آپ اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے 2012ء میں صدر پاکستان کی طرف سے خصوصی ایوارڈ بھی دیا گیا اور آپ بہترین کالم نگار کا ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ آپ کو چولستان ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ آپ کو2013ء میں پاکستان کی ہر دلعزیز شخصیت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرف سے بھی گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ بھی آپ ملکی سطح پر بے شمار اعزازات اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے۔
جاوید چوہدری ان کے بارے میں لکھتے مزید لکھتے ہیں کہ ”یہ پاکستان کے پہلے بلائنڈ کالمسٹ ہیں اور میں یہ تسلیم کرتے ہوئے پیرذادہ صاحب سے شدید حسد محسوس کررہا ہوں کہ ان کا کالم ہم جیسے عقل کے اندھوں سے کہیں بہتر، شاندار اور مضبوط ہوتا ہے۔ پیرزادہ صاحب کے کالم کی مضبوطی کی وجہ ان کا ان تھک جذبہ، ناقابل شکست ارادہ اور ہار نہ ماننے کا فیصلہ ہے جبکہ ان کے مقابلے میں ہم عقل کے اندھے اکثر اپنے ٹوٹتے جڑتے ارادوں، اپنے ہار مانتے سمجھوتوں اور اپنے جذبوں کی تھکان کے ہاتھوں مجبور ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے کالم پھیکے اور ہماری تحریریں بے روح ہوجاتی ہیں، ہمارے مقابلے میں پیرزادہ صاحب ذیادہ مضبوط اور ذیادہ ٹھوس ہیں چنانچہ ان کے کالم کی آن، شان اور بان ہر حال میں قائم رہتی ہے۔“
پیرزادہ صاحب کی زندگی بے شمار لوگوں کے لئے رول ماڈل کی حثیت رکھتی ہے۔ جب صحافت جیسے مشکل شعبہ میں آنے والے لوگ دل چھوڑنے لگتے ہیں، مایوس ہونے لگتے ہیں تو پیرزادہ صاحب جیسے لوگوں کو دیکھ کر وہ پھر سے حوصلہ پکڑنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ آپ بے شمار لوگوں کے لئے امید کا سورج بنے ہوئے ہیں۔ اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ سید سردار احمد کی طرح مشکلوں کا مقابلہ کرنا ہے یا پھر منہ چھپا کر ایک مایوس زندگی گزارنی ہے۔ بے شک وہ نئے راستوں کے مسافروں کے لئے زندہ مثال ہیں۔ آئیے ناممکن سے ممکن کی جانب کے سفر کا آغاز کریں
یقین مانیں! ساری دنیا مل کربھی آپ سے آپ کی محنت کا صلہ نہیں چھین سکتی
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP