محسن پاکستان فخر ملت اسلامیہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کرگئے قومی اعزاز کے ساتھ سپردخاک
نمازجنازہ پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے پڑھائی، وفاقی وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور عسکری قیادت کی نمازجنازہ میں شرکت
نمازجنازہ کے موقع پر عوام کی بڑی تعداد بھی موجود تھی، سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات
نمازجنازہ سے قبل محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پا ک فوج کے دستے نے سلامی دی
نمازجنازہ کے موقع پر بارش بھی ہوتی رہی، نمازجنازہ فیصل مسجد کے احاطے میں ادا کی گئی
عمربھرسنگ زنی کرتے رہے اہل یہ اور بات ہے کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کرگئے، انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ اسلام آباد کے H8قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا، ڈاکٹر عبدالقدیر کی عمر85سال تھی وہ کچھ عرصے سے علیل تھے، انہیں طبیعت خرابی کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا، تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے اور صبح7بجے بروز ہفتہ انتقال کرگئے، ان کی نمازجنازہ فیصل مسجد کے احاطے میں ادا کی گئی، نماز جنازہ پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے پڑھائی، نماز جنازہ میں کابینہ کے اراکین پارلیمنٹ، عسکری حکام اور شہریوں کی بڑی تعداد میں شرکت، اس موقع پر سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے، صدر مملکت عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، وفاقی وزراء، آرمی چیف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور تمام سروسز کے چیفس نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کرگئے، ڈاکٹر عبدالقدیر کی عمر85سال تھی، وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔ انہیں طبیعت خرابی کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا۔ تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے اور صبح 7بجے انتقال کرگئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ اسلام آباد کے H8قبرستان میں سپردخا کردیا گیا۔ یہ پاکستان کی واحد شخصیت اور پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 3صدارتی ایوارڈ ملے، انہیں 2بار نشان امتیاز سے نوازا گیا جبکہ ہلال امتیاز بھی عطاء کیا گیا۔ واضح رہے کہ محسن پاکستان قومی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اگست26کو عالمی وباء کورونا وائرس کا شکاربھی ہوئے تھے جس کے بعد ان کی آکسیجن پائپ لگی تصویر منظر منظرعام آنے کے بعد ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور تمام اہل وطن کی جانب سے ان کی صحت یابی کے لئے دعائیں کی جارہی تھیں۔ اس حوالے سے قومی سائنسدان کے ترجمان کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیہ میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر 26اگست کو KRLہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ بعد میں انہیں 28اگست کو ملٹری ہسپتال میں کویڈ وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا جس کے بعد ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اے کیو خان کے تیزی سے صحت یاب ہونے کی خبریں سامنے آئی تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936ء میں بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد1947ء میں اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جب کہ بیلجیم سے ڈاکٹریٹ آف انجینرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31مئی 1976ء میں انہوں نے انجینرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی اس ادارے کانام یکم مئی 1981ء کو جنرل ضیاء الحق نے تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیوخان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان 15برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی آف لیون میں پڑھنے کے بعد1976ء میں واپس پاکستان آگئے۔ مئی 1998ء میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا اور بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے ہی کی تھی۔ 1936ء میں بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے ایک کتابچے میں خود لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعدمیں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا۔ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کے لئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اسی ادارے نے 25کلومیٹر تک مارکرونے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچر، لیزر رینج فائنڈر، لیزر تھریٹ سینسر، ڈیجیٹل گونیو میٹر، ریمورٹ کنٹرول مائن ایکسلوڈر، ٹینک شکن گن سمیت پاک فوج کے لئے جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کے لئے متعدد آلات بھی بنائے۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو صدرجنرل پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹو اپنا مشیر نامزد کیا اور جب جمالی حکومت آئی تو بھی وہ اپنے نام کے ساتھ وزیراعظم کے مشیر کا عہدہ لکھتے تھے۔ لیکن 19دسمبر2004ء کو سینٹ میں ڈاکٹر اسماعیل بلیدی کے سوال پر کابینہ ڈویژن کے انچارج وزیر نے جو تحریری جواب پیش کیا ہے اس میں وزیراعظم کے مشیروں کی فہرست میں ڈاکٹر عبدالقدیرخان شامل نہیں تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو وقت بوقت 13طلائی تمغے ملے، انہوں نے 150سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔ 1993ء میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی 14اگست1996ء میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز دیا تھا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی ان کو عطاء کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے سیچٹ کے نام سے ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم عمل ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔ ISPRکی جانب سے جاری بیان کے مطابق چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور تمام سروسز چیفس نے پاکستان کے معروف سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں، اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے۔ سربراہ پاک فضائیہ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دفاع پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ملکی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے میں قوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی گراں قدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور سوگوار خاندان کو یہ ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنے کی ہمت عطاء فرمائے۔ چیف آف دی نیول سٹاف ایڈمرل محمد امجد خان نیازی نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبرجمیل عطاء فرمائے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی واصلاحات و خصوصی اقدامات اسد عمر نے کہا ہے کہ پاکستانی قوم اپنے محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتی۔ اتوار کو اپنے ایک ٹویٹ میں وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ تیز بارش میں فیصل مسجد اور اس کے ملحقہ علاقوں میں لاتعداد لوگوں کو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے میں شرکت کے لئے آتے دیکھ کر پتہ چل رہا ہے کہ یہ قوم اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ نمازجنازہ کی ادائیگی کے بعد فیصل مسجد سے واپسی پر کم ازکم ایک میل تک لوگ مسجد کی طرف جاتے نظر آرہے تھے جو رش کی وجہ سے وقت پر نہیں پہنچ سکے۔ بار کونسل اسلام آباد آج پورے ملک میں
سوگ منائے گی اور مختلف مقامات پر دعائیہ تقریبات کا انعقاد ہوگا۔
28مئی 1998ء کو پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے امریکہ کے ذبردست دباؤ کے باوجود دھماکہ کردیا تھا جس کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان پر کئی اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہی کی تھی۔ اور یوں مملکت خداداد پاکستان ایٹمی طاقت رکھنے والے ملکوں کی صف میں شامل ہوگیا۔ 2003ء میں امریکہ
نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے رفقاء پر الزام لگایا کہ وہ پاکستان کے ایٹمی راز شمالی کوریا، ایران اور لیبیا کو فروخت کررہے ہین اور ان کے ایٹمی پروگرام کی تکمیل میں مدد دے رہے ہیں۔ امریکہ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا مگر جنرل پرویز مشرف نے عوام اور پریس کے شدید دباؤ پر ایسا کرنے سے انکار کردیا اور وفاقی کابینہ کی سفارش پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی معافی کی اپیل منظورکرلی اور ان کی حفاظت کے پیش نظر ان کی نقل وحرکت ان کے گھر تک محدود کردی گئی۔ بعض حلقوں نے ان پابندیوں کو بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیا اور جنرل پرویز مشرف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا لیکن مقتدر حلقوں اور عوام کی طرف سے مسلسل تنقید کے باوجود انہوں نے انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا۔ امریکہ کے دباؤ میں آ کر اگر جنرل پرویز مشرف محسن پاکستان کو ان کے حوالے کردیتے تو یقینا کوئی اور بڑا سانحہ رونما ہوسکتا تھا۔ اس لئے مشرف کا یہ اقدام ملک وملت کے مفاد میں قابل تعریف رہا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صدر جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹو اپنا مشیر نامزد کیا۔ ڈاکٹر قدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں
اور جن سے ان کی دوبیٹیاں ہوئیں۔ دونوں بیٹیاں شادی شدہ ہیں۔
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP