پاکستان کی پہلی نابینا پی ایچ ڈی ڈاکٹر کا اعزاز حاصل کرنے والی کراچی عظیم خاتون کی کہانی ڈاکٹر فرزانہ سلیمان
وہ ہنستی مسکراتی پیاری سی بچی جب پیدا ہوئی تو مکمل صحت مند تھی اس کا بچپن اس لیئے ذیادہ خوبصورت تھا کہ وہ نہیں جانتی تھی کہ مستقبل میں اُسے کن کن آزمائشوں سے گزرکر کامیابی کے زینے طے کرنے ہیں، پھر جب وہ اپنی ہم جولیوں کے ساتھ کھیلتی کودتی آٹھویں کلاس میں پہنچی تو ٹائیفائیڈ اُس کی آنکھوں کی روشنی چرا کر لے گیا اور وہ ایک ہنستی مسکراتی خوبصورت زندگی کی دنیا اندھیر ہوگئی، کچھ دن تو محرومی کے غم سے نکلنے میں لگے لیکن پھر جب حوصلے کے ساتھ جینے کا اور ہر مشکل کا سامنا کرنے کا فیصلہ کتا تو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ ان کے لئے کون اتنا وقت نکالے گا، وہ تعلیم کیسے جاری رکھ سکیں گی اور انہیں کون پڑھائے گا۔
پہلے کی طرح ان کے لئے سکول جانا بھی ممکن نہیں رہا تھا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری، گھر بیٹھ کر تیاری کی اور پرائیویٹ نہم اور پھر دہم کا امتحان دیا جس میں ان کے گھر والوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ میٹرک کے بعد سینٹ لارنس کالن سے انٹر اور سینٹ جوزف کالج سے گریجویشن مکمل کی۔ اس کے بعد جامعہ کراچ سے 1985میں فلسفے میں ماسٹرز کیا تو احساس ہوا کہ شاید یہ مضمون ان کے مزاج کے مطابق نہیں ہے تو پھر انہوں نے اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کیا۔ اس دوران ہم جماعت طالبات اور سہلیوں نے ان کے بلند حوصلے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور ان کی معاونت جاری رکھی۔
1988ء میں والد کی خواہش پر فرازانہ نے شعبہ تدریس سے وابستگی اختیار کرلی اور گورنمنٹ پی ای سی ایچ ایس کالج کراچ میں لیکچرر ہوگئیں جہاں آج بھی اسلامک اسٹڈیز پڑھا رہی ہیں۔ اچھی جاب مل جانے کے باوجود ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھیں ان کے والد کی بھی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی پی ایچ ڈی کرے۔ اسی خواب کو پورا کرنے کے لئے 1992ء میں پی ایچ ڈی ک لئے کراچی یونیورسٹی میں رجسٹریشن ہوئی۔
جب باقاعدہ پی ایچ ڈی میں کلاسز کا مرحلہ آیا تو انہیں کسی ایسے ساتھی کی ضرورت تھی جو انہیں پڑھ کرسنا سکے تو اللہ نے ایک پروگرام میں اُن کی ملاقات سارہ سے کروا دی، ان کی آپس میں دوستی ہوگئی اور وہ روزانہ ان کے پاس آتیں اور ان کے لکھنے پڑھنے کے کام میں مدد دیتیں اس طرح یونیورسٹی جانے کی آمدورفت کے لئے بھی انہیں پروس میں رہنے والی عارفہ کا ساتھ میسر آیا اس میں کوئی شک نہیں کہ جب انسان ہمت کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو وسائل اللہ پاک کی ذات خود مہیا کرتی ہے۔ پی ایچ ڈی کی تکمیل کء بعد انہیں علم ہوا کہ وہ پاکستان کی پہلی نابینا خاتون ہیں جنہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے نہ صرف بریل سیکھی بلکہ حفظ قرآن پاک کی عظیم سعادت بھی حاصل کرلی۔
وہ نابینا ہونے کے باوجود دین اور دنیا کی تعلیم کے علاوہ روز مرہ کے کاموں میں بھی آگے رہتی ہیں گھر اکثرکام باآسانی کرسکتی ہیں وہ قرآن مجید کو اپنی پسندیدہ کتاب قرار دیتی ہیں فرصت میں ترجمعہ وتفسیر کا ہی مطالعہ کرتی ہیں درس و تدرس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اب تک چار کتابوں کی تصانیف بھی کرچکی ہیں جن میں لوگوں کی رہنمائی اور حوصلے کی وہ منتظر ہیں اس کتاب کا مقصد محض آپ کو حقیقی کہانیوں سے روشناس کرانا نہیں بلکہ ان لوگوں کی قابلیت کا احساس دلانا بھی ہے تاکہ اگر کل آپ کسی ایسے فرد کو دیکھیں جو فقط اپنی کسی چھوٹی سی کمی کی وجہ سے دل چھوٹا کیئے ہوئے بیٹھا ہو، آپ اُس کا حوصلہ بن جائیں آپ اگر زندگی میں کہیں رک گئے ہیں یا حوصلہ چھوڑ رہے ہیں تو یہ سب لوگ آپ کی ہمت بڑھانے کے لئے ہیں۔ ان کی کامیابیاں آپ کو احساس دلائیں گی کہ جب زندگی میں کچھ کرنے کی ٹھان لی جائے تو کمزوریاں بھی طاقت بن جایا کرتی ہیں۔
امید ہے کہ آپ زندگی میں ہر گزگمنام مرنا پسند نہیں کریں گے آپ نہ صرف خود کامیاب ہونگے بلکہ اس دنیا کو بھی بہت کچھ دے کرجائیں گے جینا سیکھیں گے اور سکھائیں گے، آگے بڑھیں منزلیں آپ کی منتظر ہیں۔ ڈاکٹر فرزانہ کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ
جن لوگوں کی زندگی میں مشکلات نہیں ہوتیں وہ کبھی کامیابی کی لذت سے آشنا نہیں ہوسکتے
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP