دیہاڑی دار خواتین - Haripur Today

Breaking

Wednesday, 25 August 2021

دیہاڑی دار خواتین

 






دیہاڑی دار خواتین

پتھر کوٹنے والی یا اینٹیں پکڑانے والی مزدور خواتین گود کے بچے کو قریب کسی چارپائی کے ساتھ جھولا باندھ کر لٹائے، گھروں میں ٹیوشن پڑھا کر خرچہ چلانے والی پڑھی لکھی نوجوان خواتین، کسی پرائیویٹ فرم میں سیلز وومن کی ملازمت کرنے والی خواتین، دہاڑی پر کام کرنے والی مزدور خواتین یا کھیتوں میں کام کرنے والی محنت کش خواتین۔۔ یہ اور ان کی طرح کی لاکھوں خواتین اس ملک میں روزانہ صبح اپنے گھروں سے نکلتی ہیں، اپنے گھر کا خرچہ چلانے کے لئے اپنی خون جلاتی ہیں۔ آندھی ہو یا طوفان یہ کسی قسم کی چھٹی افورڈ نہیں کرسکتیں، کیونکہ اگر یہ چھٹی کریں گیں تو زندگی سے ہی ان کی چھٹی ہوجائے گہ۔ یہ بیمار ہونے کی عیاشی بھی نہیں کرسکتیں کیونکہ ان کی جیب انہیں نزلہ، زکام سے ذیادہ کسی بیماری کی اجازت نہیں دیتی۔ وہ کہتی ہیں کہ ”جس دن ان کے جسم میں توانائی نہیں رہے گی، جس دن ان کا مالک انہیں کسی بھی وجہ سے کھڑے کھڑے نوکری سے فارغ کردے گا، جس دن انہیں دیہاڑی نہیں ملے گی یا جس دن یہ کسی بیماری کی وجہ سے کام کے قابل نہیں رہیں گیں، اس دن انہیں کوئی یہ نہیں پوچھے گا کہ اب آپ گزر بسر کیسے کریں گی؟۔ بیماری کو خرچہ کون اُٹھائے گا؟۔ بچوں کی فیس کون دے گا؟ زندگی کی چکی کیسے چلے گی؟، کیونکہ بائیس کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں جہاں ہر برس چالیس لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں، ریاست کے پاس اتنے روپے نہیں ہیں کہ وہ ان لاکھوں خواتین کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے بارے میں سوچے۔ ایسے میں یہ لوگ کہاں جائیں؟ تو ان حالات میں کیا ایسا کوئی طریقہ ممکن ہے جسے بروئے کار لاکر ریاست ان لوگوں کی بنیادی ضروریات کا تحفظ یقینی بناسکے؟ یہ سوال ہم نے رضیہ مغل ایڈوکیٹ سے کیا تو وہ کہنے لگیں کہ ”جی ہاں ایک طریقہ ہے اس قسم کے کروڑوں لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے حکومت ایک ایسا کام کرسکتی ہے جس میں پیسے سے ذیادہ ریاست کی عملداری کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، اور وہ کام ہے لیبرقوانین کا نفاذ، اس وقت ملک میں بھانت بھانت کے لیبر قوانین لاگو ہیں۔ آئین پاکستان بھی مختلف قسم کی ضمانتیں دیتا ہے جن میں جبری مشقت کی ممانعت، چودہ برس سے کم عمر بچوں سے کام لینے کی پابندی، مزدوری کے اوقات کار کا تعین، کم سے کم اجرت کا قانون اور ورکرویلفئیر فنڈ سے ملازمین کے علاج معالجے اور دیگر ضرورتیات کو پورا کرنے کا قانون، لیبر عدالتیں اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن ریاست کے ہر ادارے اور اس ملک کے ہر شہری کی آنکھوں کے سامنے ان قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔

وہ اقدامات کرنے سے ہمارے ملک کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ پہلا حکومت لیبرقوانین  پرپوری ریاستی قوت کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بنائے، کوئی بھی شخص جو کہیں مزدوری یا ملازمت کرتا ہو، دوکان  یا فیکٹری، سیٹھ ہو یا کمپنی، اس کا ایک کھاتا  سوشل سیکورٹی کے محکمے کے پاس کھل جائے۔ جہاں سے اسے سوشل سیکورٹی نمبر جاری کر دیا جائے۔ اس کی ماہانہ تنخواہ سے دس فیصد کٹوتی کرکے ایک فنڈ میں ڈال دیا جائے اور آجر بھی اس فنڈ میں دس فیصد حصہ ڈالے۔ یوں ہر ماہ تنخواہ کی بیس فیصد بچت ہو۔ دوسرا کام حکومت یہ کرکے کہ بیمہ کمپنیوں سے معاہدے کرے، ہر تنخواہ دار بندے کی یہ بیس فیصد انشورنس کی مد میں جائے جس کے عوض اسے بیماری کے خلاف تحفظ ملے، حادثاتی موت کی صورت میں اس کے پسماندگان کو بھاری معاوضہ ادا ہو یا پھر پندرہ بیس برس کی مخصوص مدت کے بعد اسے اس کی بچت بمع منافع وصول ہو جائے۔ پاکستان میں بے شمار بیمہ کمپنیاں دین کے اصولوں کے مطابق یہ سہولت فراہم کررہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سہولت کو غریب مزدور کے تحفظ کے لئے استعمال کیا جائے۔ یہ درست ہے کہ ملک میں اس وقت ورکر ویلفئیر فنڈ اور سوشل سیکورٹی کے ادارے قائم ہیں مگر وہ اس طرح مربوط انداز میں کام نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی ہر ملازمت پیشہ مجبور آدمی ان سے استفادہ کرسکتا ہے۔ یہ نظام پورے یورپ میں رائج ہے اور وہ اس کے ثمرات نہایت کامیابی سے عوام تک پہنچا رہے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ہر کام کی مکمل ذمہ داری حکومت نہیں نبھا سکتی۔ اس کے لئے نجی شعبے کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ پاکستان میں بیمہ کمپنیاں اور سوشل سیکورٹی کا محکمہ اگر یہ نظام اپنا لے تو عوام کے ایک بڑے طنقے کے دلدر دور ہوسکتے ہیں۔

بدقسمتی سے فیکٹری سسٹم نے سب سے ذیادہ نقصان مزدور عورتوں کو پہنچایا ہے۔ شروع میں کپڑے کی فیکٹریاں تھیں، جہاں مشینوں کو چلانے کے لئیے کسی خاص تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ لہذا فیکٹری کے مالکان ان مشینوں کو چلانے اور دیکھ بھال کے لئے غیرشادی شدہ عورتوں اور بچوں کو ملازم رکھتے تھے۔ شادی شدہ عورتوں کو اس لیے ملازمت نہیں دی جاتی تھی کہ کیونکہ ان کے ساتھ زچگی اور بچے کی پرورش کے مسائل ہوتے تھے۔ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو آدھی تنخواہ دی جاتی تھی۔ ان کے نزدیک عورتوں کو کنٹرول کرنا بھی آسان ہوتا تھا۔ کام کے دوران بات چیت ممنوع تھی۔ کام کا دورانیہ 18یا 19گھنٹے ہوا کرتا تھا اور پھر عورتوں کو واپس گھر جاکرکھانا پکانا بھی پڑتا تھا۔ ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ اپنے کپڑے دھو کر صاف ستھرا لباس پہن سکیں۔ گھریلو تشدد کے واقعات بھی ہوتے تھے۔ رہائش کے لیے کچی آبادیاں تھیں، جہاں نہ تو گندے پانی کی نکاسی کا بندوبست تھا اور نہ پینے کے لئے صاف پانی۔ اس لئے یہ عورتیں بیماریوں کا شکار رہتی تھیں۔

رشیدہ بی بی جو مزدوری کرتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ ”ہمارے ہاں مزدور عورتوں کی ایک بڑی تعداد گھر کی آمدنی کے لئے مردوں کے ساتھ مل کرکام کرتی ہیں، کیونکہ یہاں سڑکیں اور عمارتیں بنانے کا کام ٹھیکدار کرتے ہیں۔ اس لئے وہ کسان اور خانہ بدوش قبیلوں کی عورتوں سے محنت مزدوری کراتے ہیں جو انہیں سستے نرخوں پرمل جاتے ہیں سڑکوں کو بناتے وقت پتھروں کو کوٹنے کاکام بھی مزدور عورتیں کرتی ہیں۔ مزدور عورتیں عمارتوں کی تعمیر میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ اگر ہم میں سے کسی کا چھوٹا بچہ ہو تو اُسے کپڑے میں لپیٹ کر کسی محفوظ جگہ رکھ دیا جاتا ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے تو اس کی دیکھ بھال کر لی جاتی ہے۔ ہم تیار مصالحے کو پراتوں میں بھر مستریوں تک پہنچاتی ہیں۔ ہمارا کام بہت ہی مشکل ہے لیکن زندگی گزارنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔ ژوبیہ شہزادی کو کہ بھٹے پر کام کرتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ ”غریب مزدور عورتوں اور اُن کے خاندان کا سب سے ذیادہ استحصال اینٹوں کے بھٹے میں اس کے مالکوں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ عورتوں اور اس کے خاندان والوں کو ضرورت کے وقت قرضہ دے کر انہیں غلام بنا لیا جاتا ہے اور زندگی بھر نہ تو یہ قرضہ اترتا ہے اور ہی ہم اس قید سے آذاد ہوتے ہیں۔

منزہ شاہیں جو کہ ایک فیکٹری میں کام کرتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ مہنگائی کے سبب اب غریب مزدور عورتوں کے ساتھ ساتھ نچلے متوسط درجے کی عورتیں بھی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن ان ملوں میں ہمیں ماہانہ تنخواہ نہیں دی جاتی بلکہ ان کی اجرت دیہاڑی کی شکل میں ادا ہوتی ہے۔ ہم گرمی اور سردی کے موسم میں، موسم کی سختی برداشت کرکے کام پر آتی ہیں۔ اور مہنگائی کا مقابلہ کرتی ہیں۔ ہمیں مشکل ہی سے اتنا وقت ملتا ہے کہ زندگی سے لطف اندوز ہوسکیں۔

ان مزدور عورتوں کے علاوہ گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کی بڑی تعداد ہے جہاں نہ تو ان کی ملازمت کا تحفظ ہے اور نہ ہی ان کے حقوق کی پاسداری ہے۔ اخبارات میں روز ایسی خبریں آتی ہیں جن میں گھریلو ملازماؤں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس تشدد کے نتیجے میں اموات بھی واقع ہوجاتی ہیں۔ آسیہ بی بی ایک گھریلوملازمہ ہیں وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں اگر مزدور کے حالت تلخ ہیں تو مزدور خواتین کے تلخ تر ہیں۔ پاکستان جیسے ملک یں چاہے تعمیراتی کاموں میں مصروف ہوں، اینٹوں کے بھٹوں میں کام کریں اور یا گھریلو خواتین ایک گھر سے دوسرے گھر صبح وشام تک کاموں میں مصروف رہیں۔ اس محنت کے باوجود معاشرہ ان کی عزت نہ کرے تو اس سے بڑھ کر اخلاقی جرم اور کیا ہوگا؟

المیہ یہ ہے کہ روایتی تاریخ میں بھی ان عورتوں کے کاموں کی اہمیت کو نہیں سمجھا جاتا ہے۔ یہ اپنی غربت اور مفلسی کے باوجود معاشرے کی بنیادی تشکیل کرتی ہیں اور اپنی محنت سے اشرافیہ اور متوسط طبقے کے لوگوں کو آرام اور سکون پہنچا کر خود زندگی کی سہولتوں سے محروم رہتی ہیں۔ پاکستان کی ملبوسات کی صنعت میں لاکھوں مرد و خواتین ہیں جو استحصال اور قوانین کے غلط استعمال کا شکار ہیں۔ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو متعلقہ لیبر قوانین پر نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوں۔ پاکستان کی وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ مزدوروں کی شکایات کی بابت بدسلوکی، مارپیٹ، دھمکیاں، ہتک آمیز رویوں کے بارے میں موثر اور غیرجانبدار تفتیش کروائے اور ذمہ داران کے خلاف مقدمات چلوائے۔ پاکستان کی صوبائی حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ لیبر انسپکٹروں کی تعداد میں اضافہ کرے ان کی تربیت کو بہتر بنائے اور آذاد اور متعبر معائنہ کے نظام کو قائم کرے اور اپنے وسائل کے مطابق موثر معائنوں کی تعداد میں اضافہ کرے۔ ملکی اور بین الاقوامی کمپنیاں جو پاکستان میں مال تیار کرواتی ہیں کو چاہیے کہ وہ مال فراہم کرنے والی فیکٹریوں کی فہرست کو عام لوگوں کے علم میں لائے۔ اس سلسلے میں انہیں چاہیے کہ وہ اکھٹے ہوکر قدم اٹھائیں اور مزدوروں کی شکایات کے ازالہ کے لئے اقدامات اٹھائیں اور ایک ایسا نظام مرتب کریں جس میں مزدوروں کو انجمن سازی کی آذادی ہو۔


No comments:

Post a Comment

Thank you for contacting us, we will response ASAP

Pages