ہری سنگھ نلوہ، تاریخی کرداد
تحریر: ملک ناصر داؤد
پچھلے دنوں ہری پور شہر کے ایک چوک میں سکھ جرنیل ہری سنگھ نلوہ کے مجسمہ کو ہٹا دیا گیا۔ اس مجسمہ میں ہری سنگھ نلوہ کو ایک گھوڑے پر سوار ہاتھ میں تلوار لئے دکھایا گیا تھا۔ گجرانوانہ میں گردیال سنگھ اُپل اور دھرما کور کے گھر 1791ء میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا اصل نام تو ہری سنگھ نلوہ تھامگرگھر والے پہار سے اسے بگھمار (شیر کا شکارکرنے والا) کہتے تھے۔ یہ لڑکا بعد میں سکھ خالصہ فوج کا کمانڈر ان چیف بنا جو ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک بہادر، نڈر اور باصلاحیت آدمی تھا۔ ہری سنگھ نلوہ نے سکھوں کے لئے شاندارخدمات سرانجام دیں۔ اس نے قصور، سیالکوٹ، ملتان، اٹک، کشمیر، پشاور اور جمرود کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ ہزارہ تو جغرافیائی طور پر پنجاب کے ساتھ تھا۔ ہری سنگھ نلوہ نے دریائے سندھ کے پار سکھ سرکار کا جھنڈا لہرانے میں شاندار کردار ادا کیا۔ وہ سکھ دور میں کشمیر اور ہزارہ کا گورنر بھی رہا۔ مغل حکمرانوں کو مرہٹوں اورسکھوں نے مشکلات میں مبتلا رکھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کی موت پر مقامی قوتوں نے سراُٹھایا اور اٹھارہویں صدری عیسوی کے آخر میں پنجاب، کشمیر اور خیبرپختونخواہ (صوبہ سرحد) میں تبدیلیاں آئیں۔ رنجیت سنگھ (1776 - 1838) نے خالصہ فوج کو منظم کیا اور پنجاب پر اس کی حکمرانی رہی۔ جب اس نے پنجاب میں پاؤں مضبوط کرلئے تو اس نے سرزمین ہزارہ کی طرف توجہ دی۔ اصل میں یہاں کے مقامی حکمرانون کی باہمی لڑائی کے باعث وہ اس طرف متوجہ ہوا۔ سکھوں نے جب ہزارہ کا رخ کیا تو یہاں پر ان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے تین جرنیل مہان سنگھ، دیوان مادودیال اور سردار امرسنگھ مجیٹھہ یہاں مارے گئے۔ یہاں کے رہنے والے سکھوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ سمندر کھٹہ، سرائے صالح (دریائے دوڑ)، ناڑہ اور کئی جگہوں پر سکھوں اور ہزارہ کے لوگوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں۔ اس میں مالیہ (ٹیکس) کی شرح میں اضافہ کا ایشو بھی تھا جس کی شرح بہت ذیادہ تھی۔ جب حالات قابو سے باہر ہوئے تو رنجیت سنگھ نے ہری سنگھ نلوہ کو ہزارہ میں بھیجا۔ اس نے ہری پور شہرمیں ایک قلعہ (ہری کشن نگر) بنایا اور اور کئی عمارات تعمیر کیں۔ اپنی حکمت سے مقامی سرداروں کو قائل کیا۔ انتظامی معاملات میں اس نے سخت رویہ اپنایا۔ اس نے جومالیہ طے کیا اسے وصول کرنے میں کسی کو نہیں بخشا۔ وہ ایک بے رحم حکمران تھا۔ ہزارہ کے لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے بے پناہ نفرت تھی۔ محمدخان ترین نے اس دور میں سکھوں کے خلاف جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ مشوانی، جدون، کڑلال اور تنولی قوم نے سکھوں کے خلاف جدوجہد کی۔ نواں شہر اور دربند کے قلعے اسی دور میں بنے۔ سکھ دور کے مظالم کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ہزارہ کے لوگوں کی مزاحمت کو دیکھتے ہوئے دہلی نے 1831ء میں سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید یہاں آئے۔ ا ن لوگوں کو ابتدا میں کامیابیاں ملیں اور پھر سکھوں سے لڑتے ہوئے یہ بزرگ شہید ہوگئے۔ ہری سنگھ نلوہ 1837ء میں دست محمدخان کی فوج کے ساتھ لڑتا ہوا مارا گیااور اس کی قبر جمرود قلعہ میں ہے۔ سکھ راج میں انہوں نے ہزارہ میں سکون سے حکومت نہیں کی۔ سکھوں اور انگریزوں میں پہلی لڑائی ہوئی جس میں سکھوں کو شکست ہوئی تو ہزارہ کے علاقے انگریزوں کے زیر تسلط ایک معاہدے کے تحت آگئے۔ میجر جیمز ایبٹ 1849ء یہاں انگریزوں کا نمائندہ بن کر آیا۔ اس نے اپنی ذہانت اور معاملہ فہمی سے حالات کو کنٹرول کرلیا۔ آلائی، بٹگرام اور کالا ڈھاکہ میں حالات رہے۔
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP