پاکستانی میڈیا ، ہمارا ترجمان یا غیروں کا؟
تحریر: قدسیہ ملک
جو ڈر گیا وہ مرگیا، کھا لے پی لے جی لے، داغ تو اچھے ہوتے ہیں، داغ نہیں تو سیکھنا نہیں، جسٹ ڈو اٹ، مزا ہے زندگی، سب کہہ دو، تم ہی تو ہو، سپر ہے زندگی ، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ یہ سب وہ جملے ہیں جنہیں ہم نہ چاہتے ہوئے بھی آئے روز ذہنوں میں دہراتے ہیں۔ لاشعور میں جانے سے پہلے ہی اسے دوبارہ شعور کی دنیا میں لے آتے ہیں۔
سماجی ذمہ داری کا نظریہ جان ملٹن اور اس کے ہم عصروں کی مسلسل اور سخت جدوجہد کے بعد معاشرے اور حکومتی حلقوں میں ان اصولوں کی روشنی میں کارفرمائی شروع ہوئی جس کے مطابق انہوں نے کچھ معاملات طے کئے۔
نمبر(1) – اچھی حکومت لوگوں کے کم معاملات پر حکومت کرے
نمبر (2) – لوگوں پر بھروسہ کیاجائے
نمبر (3)- عام طور پر لوگ صیح فیصلہ کرلیتے ہیں
ان اختیارات کے بعد اخبارات و جرائد نے آذادی حق کا بے جا استعمال شروع کر دیا۔ بعض اخبارات آذادی اظہار کا غلط ، منفی اور پُرفریب استعمال بھی کرنے لگے۔ جیسا ہمارے معاشرے میں آئے روز عوام ان نقصانات کی ضرررسانیوں سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ بیسویں صدئ کے آخر تک ذرائع ابلاغ اس نظریے کی شقوں کے غلط اور آذادانہ استعمال کی بدولت اپنے عوام کو سب کچھ دکھانے اور منفی پروپیگنڈے، سچ کو جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ پیش کرنے پر بھی کسی جواب دہی کے پابند نہیں ہوتے تھے۔ بیسویں صدی کے اہم واقعات میں چاند پر زندگی کی خلائی مخلوق کے متعلق جھوٹے واقعات، جنگ کے متعلق افواہیں، یلو کڈ کارٹون وغیرہ شامل ہیں۔
اس سمت میں کسی ملک کی حکومت کسی وزیر کسی حکومتی سطح پر براہ راست ذرائع ابلاغ پر کوئی بات کرنا، کوئی شق، کوئی حکومتی بیان کسی نئے مسئلے کو دعوت دینے کے مترادف تھا اسی لئے ایک نجی ادارے "ٹائم ان کارپوریٹ" کی فراہم کردہ رقم سے 1942 میں ایک کمیشن قائم کیا گیا جس نے 1947 تک کام کیا۔ اسے ہچسن کمیشن فریڈم آف دی پریس کہتے ہیں۔ کمیشن نے پانچ سال میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ ابھی تک امریکہ اور یورپی ممالک بشمول اسلامی آذاد ممالک اور پاکستان میں اسی رپورٹ کو بنیاد بنا کر تمام ذرائع ابلاغ کے متعلق قانون سازی کی جاتی ہے۔
رپورٹ کے نکات مندرجہ ذیل ہیں:-
نمبر (1)۔ ذرائع ابلاغ پر معاشرے کی طرف سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے ان کی ملکیت کسی تجارت کی طرح نہیں ہوتی۔ عوام کے اعتماد پر پورا اترنا ضروری ہے۔
نمبر (2) – خبری ذرائع ابلاغ کو صادق، درست ، سب کے ساتھ مساوی سلوک کا حامل، غیر جانبدار اور معاشرے کے جملہ حالات کے مساوی ہونا چاہئے۔
نمبر (3)۔ ذرائع ابلاغ کو آذاد ہونا چاہئے، معاشرے کی خدمت کے لئے کاپی رائٹ بند ہونا چاہئے۔
نمبر (4)۔ ذرائع ابلاح کو اخلاقی اصولوں اور پیشہ ورانہ قواعد کے متفقہ ضابطوں پر عمل کرنا چاہیے۔
نمبر (5) ۔ عوامی مفادات حفاظت کے لئے حکومت کو ذائع ابلاغ کے معاملات میں مداخلت کرنی پڑ سکتی ہے۔
نمبر (6) ۔ ذرائع ابلاغ کا اہم کام یہ ہے کہ خود کو تبصرے و تنقید کے لئے ایک پلیٹ فارم سمجھیں تاکہ انہیں عوام کے تمام حلقوں کے مفادات کا محافظ سمجھا جائے۔
نمبر (7)۔ ابلاغی ادادے معاشرے کے اقدار و روایات کو لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ ہونے دیں۔
نمبر (8)۔ ابلاغی ادارے وہ ہوں جو معاشرے کے تمام حالات کی نمائندہ تصویروں کے سامنے پیش کریں، ان کی فراہم کردہ معلومات و اطلاعات سیاق وسباق کے ساتھ مکمل ہوں۔
نمبر (9) ۔ ذرائع ابلاغ کو معاشرے کے خاص خاص پہلوؤں کو اجاگر کرتے رہنا چاہئے تاکہ لوگ ان حصول کی جدو جہد سے غافل نہ ہو جائیں اور مل جل کر عظیم برادریاں پیدا کرسکیں۔
نمبر (10) ۔ ذرائع ابلاغ کو سنسی اور خبروں میں رائے زنی سے اجتناب کرنا چاہئے۔
نمبر (11) ۔ جرائم ، تشدد ، بدامنی ، اقلیتون کے خلاف اقدامات کی بیخ کنی ہوتی ہو۔
نمبر (12)۔ بڑے ابلاغی اداروں کو معاشرے کے چھوٹے گروہوں کو بڑے گروہوں کے ظلم اور نفرت انگیز پروپیگنڈہ کے تدارک کے لئے ٹیلی ویژن پر وقت فراہم کیا جانا چاہئے تاکہ یہ گروہ بھی اپنا نکتہ نظر پیش کر سکے۔
یہ ہچسن کمیشن کی وہ رپورٹ تھی جس کی روشنی میں یورپی ممالک میں آج تک سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔ یہ بات شاید ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ کا خود اپنے ملک اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے متعلق الگ نظریہ ہے۔ ان کے اپنے شہریوں ک لئے پیش کی جانے والی تمام خبریں، پروگرام، ریئلٹی شوز، ڈرامے ان تمام اطلاعات ومعلومات سے قطعا مختلف ہوتی ہیں جو وہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنی ابلاغی اداروں کے ذریعے پہنچاتے ہیں۔ یورپ کے بیشتر ممالک میں یہ فلاسفی استعمال کی جاتی ہے ۔ خود برطانیہ نے اپنے شہریوں کو پرتشدد واقعات اور سنسنی خیز خبروں سے دور رکھا ہے۔
اب ہم پاکستانی معاشرے کی جانب سے چلتے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں۔ پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک جس طرح طاغوت کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے اس سے ہر صاحب بصیرت اچھی طرح واقف ہے، وہ سازشیں ، ایجنڈے ، قوانین اور بین الاقوامی منظرنامے جن کا پاکستان کو پہلے دن سے سامنا رہا ہے، سب کے سامنے ہیں۔ ہمارے ابلاغی ادارے چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہویا الیکڑانک میڈٰیا ہوں، ایکٹیوسٹ یا اعلیٰ اداروں کے سربراہ سب بہ خوبی جانتے ہیںکہ پاکستان میں کس کا حکم چلتا ہے۔ یہ دیس تو لاالٰہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور بنانے والے نے بھی اپنی جانب سے حتیٰ الامکان کوشش کی تھی کہ یہ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں میں نہ چلا جائے۔ لیکن بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح ؒ کا انتقال سے کچھ دن قبل یہ بیان کہ " میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں" بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ کہ کس طرح سازش کے تحت قائد کے انتقال کے تین سال گزرجانے کے بعد بھی محترمہ فاطمہ جناح کو عوام سےد ور رکھا گیا، کس طرح لیاقت علی خان کو قتل کیا گیااوران کے قاتل کو موقع پر ہی گولی مار دی گئی، کس طرح ملک دشمن عناصر برسراقتدار آئے اور آج تک ملک کو کھا رہے ہیں۔
ان حالات کے بعد 1965 میں رات کی تاریکی میں دشمن ملک نے پاکستان پر حملہ کیا جس کا منہ توڑ جواب قوم کے جیالوں نے حب الوطنی اور محبت ویگانگت سے دیتے ہوئے دشمن پر ایسا جوابی کاری وار کیا کہ دشمن اپنی بیرکوں میں شکست خوردہ واپس چلا گیا اور ہم آرام سے بیٹھے رہے، بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ ہمیں لوری دے کر سلا دیا گیا۔
اسی دوران جب مشرقی پاکستان میں شورش برپا تھی ، مغربی پاکستان کے مسلمان بے خبر اپنی زندگی میں گم تھے۔ سوائے جماعت اسلامی کےکوئی ایسی جماعت تاریخ میں نظر نہیں آتی جس نے عوام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے اپنا حصہ ڈالا ہو۔ مسلم لیگ صرف پنجاب اور پیپلز پارٹی سندھ کی حد تک فعال تھی۔ صرف جماعت اسلامی ہی تھی جس کے کارکنان بیک وقت مشرقی اور مغربی پاکستان میں فعال تھے۔ سیلابوں کی سرزمین پر جب سیلاب آتے تو یہی کارکنان " فلڈریلیف فنڈ" جمع کرنے کے لئے نکل پڑتے اور دن رات فنڈ اکٹھا کرکے مشرقی پاکستان پہنچاتے۔
اس وقت بھی ذرائع ابلاغ نے کوئی خدمت انجام نہ دی ۔ ہماری پروفیسر بتاتی ہیں کہ اُس وقت بنگال کے پی ٹی وی پروگراموں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے وہاں صرف ناچ گانے ہی ہوتے ہیں۔ بالآخر سازشیں کامیاب ہوگئیں، ملکی ذرائع ابلاغ کی بدولت ہم یہ جنگ باآسانی ہار گئے۔ 90 ہزار پاکستانی فوج نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دئیے اور یوں نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ اس وقت بھی ذرائع ابلاغ جی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی ترجمانی کرتا لیکن اس کے برعکس اخبارات اور برقی ابلاغ نے سازشوں کا شکار ہوکر اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کی۔ آج ہم یہ شورش و سازش بلوچستان میں دیکھ رہے ہیں۔ ابلاغی اداروں کی اہم خصوصیت یہی ہے کہ وہ معاشرتی اقدار کو لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ ہونے دیں۔ آج کل کے ابلاغی ادارے معاشرے کی اقدار و روایات کا جس طرح سے جنازہ نکال رہے ہیں ، میں اور آپ اس سے بہ خوبی واقف ہیں، مارننگ شوز کے نام پر حیاسوز پروگرام تمام چینلوں سے براہ راست نشر کی جاتی ہیں۔ پرنٹ میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں، بہت سے اخبارات میں مدر ڈے، فادر ڈے، ٹیچر ڈے، بسنت، ویلنٹائن ، ہیلووین ڈے اور بلیک فرائیڈے کے نام پر خصوصی ایڈیشن شائع کئے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا میڈیا ضابطہ اخلاق کا پابند نہیں۔ خبروں کی سنسنی خیزی اور اس کے درست یا غلط ہونےسے پہلے ہی اتنی بات کرلی جاتی ہے کہ جس کے باعث معاشرے میں بے حسی پھیل رہی ہے۔
تشدد کی بیخ کنی کی شق بھی ہمارے ابلاغی اداروں اور پروگرام بنانے والے افراد کی پالیسیوں سے کوسوں دور ہے۔ ہمارے محترم استاد ڈاکٹر اسامہ شفیق کے مطابق گھریلو تشدد، ساس بہو سے جھگڑے، میاں بیوی میں ناچاقی اس تواتر سے دکھائی جاتی ہے کہ لگتا ہے پاکستان کا ہر گھر اس میں مبتلا ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ آج ہی ہماری پروفیسر ڈاکٹر رفعیہ لیکچر کے دوران یہ بتا رہی تھیں کہ نیویارک سٹی میں ہر منٹ میں ایک جرم ہوتا ہے اور جس تواتر کے ساتھ وہاں جرائم ہوتے ہیں ہم اور آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ لیکن صرف یہ کہ ان کا میڈیا ان باتوں، افعال کی تشہیر نہیں کرتا ، اسی لئے ہم انہیں پُرامن سمجھتے ہیں جبکہ سب کم جرائم کی شرح اسلامی ممالک میں ریکارڈ کی جارہی ہے۔
شرمین عبید چنائے کی پاکستان پر بننے والی "آنرکلنگ" اور "سیونگ فیس" جیسی ڈاکومنٹری کی عالمی پذیرائی کے باعث پاکستانی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے عناصر اور زیادہ گرم جوشی کے ساتھ مل کر اپنا کام ایک خاص ایجنڈا کے تحت سرانجام دے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام الناس میں شعور و آگہی بیدار کی جائے۔ ہر خبر پر فوری ردعمل کا اظہار نہ کیا جائے۔ ذرائع ابلاغ پر بیشتر ڈاکومنٹری، خبریں اور پروگرام جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں لہذا ان کے متعلق افواہوں پر کان نہ دھرے جائیں۔ فوری ردعمل کے ذریعے ابلاغی اداروں کے نمبروں پر فون اور ای میل کے ذریعے غلط پروگراموں کی نشاندہی کی جائے۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی جانب ابلاغی اداروں کی توجہ بذریعہ ای میل، واٹس ایپ، ایمو، خطوط، فون اور سوشل میڈیا پر چلنے والے ان سے متعلقہ صفحات پر کروائی جائے۔ ابلاغی اداروں کی کسی غلطی کا فوری ردعمل عوام کے بجائے براہ راست ادارے تک پہنچایا جائے۔ بحیثیت قوم اپنے ہونے کا ثبوت دیجئے۔ وقت بتا دےگا کہ آپ درست تھے۔
اے خاک نشینو! اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اے ظلم کے مارو! لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP