فیشن ایبل کپڑوں کی سستے دام دستیابی کیسے ممکن ہے؟ - Haripur Today

Breaking

Tuesday 17 August 2021

فیشن ایبل کپڑوں کی سستے دام دستیابی کیسے ممکن ہے؟

 



فیشن ایبل کپڑوں کی سستے دام دستیابی کیسے ممکن ہے؟

دنیا بھر میں اب کپڑوں کی قیمتیں کم جبکہ ان کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ مگر اس سب کی ایک بہت بڑی وجہ انسانی اور ماحولیاتی قیمت ہے۔ آپ کو وہ وقت یاد ہے جب صرف خاندان میں شادی یا پھر عید کے لئے ہی نئے کپڑے بنائے جاتے تھے۔ ہم میں سے ذیادہ تر لوگ اب کسی خصوصی موقعے کا انتظار کئے بغیر کپڑے خرید لیتے ہیں اور اس کی بڑی وجہ کئی کپڑوں کی قیمت میں حیرت انگیز کمی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اب برطانوی لوگ انیس سو اسی کی دہائی کے مقابلے میں پانچ گنا ذیادہ کپڑے خریدتے ہیں۔ گلوبالائزیشن کی وجہ سے اب دوردرارز علاقوں میں کم قیمت پر کپڑے تیار ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے قیمتیں کم اور ورائٹی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر ایسا کیسے ممکن ہوتا ہے؟ اور ہماری خریداری کی عادات کی ہمارے ماحول کو کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ بی بی سی ویڈیو کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے سپین سے لے کر ایتھوپیا تک کا سفر کیا تاکہ یہ جانا جاسکے کہ کس طرح ہماری زمین اور محدود وسائل رکھنے والے لوگ فیشن کے لئے ہماری نہ بجھنے والی پیاس کی قیمت چکاتے ہیں اور ہم اس سے کس طرح بچ سکتے ہیں۔ برینڈڈ پر فیشن رجحانات کو کیٹ واک سے عام لوگوں تک لانے اور اس دوران سرمایہ کاروں کے درمیان منافعے کی تقسیم کے وبا کی وجہ سے سستے ترین ذرائع کی تلاش کے لیے ایک تجارتی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ اس عمل کو تنفید کرنے والے ”سوئی کا پیچھا“ کرنا کہتے ہیں۔ کپڑے تیار کرنے والے کچھ مزدوروں کی مشکلات دنیا کے سامنے اس وقت آئیں جب گارمنٹس کے گیارہ سو اٹھتیس مزدوروں نے بنگلہ دیش کے رانا پلازہ ٹیکسٹائل کمپلیکس کے انہدام میں اپنی جانیں گنوا دیں۔ ان لوگوں کے کام کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے دباؤ میں اضافہ ہوا اور اس کے بہتر نتائج بھی ملے۔ مگر جب بنگلہ دیش میں مزدوروں کی اجرت بڑھی تو کئی کمپنیاں اپنے اخراجات کم رکھنے کیلئے دوسرے ممالک چلی گئیں۔ مثال کے طور پر ایتھوپیامیں بنگلہ دیش کے مقابلے میں اجرتیں اوسط ایک تہائی کے برابر ہیں۔ ہفتہ وار سات ڈالر سے بھی کم تنخواہیں عام ہیں۔ دوسرے ملکوں سے مسابقت سے نمٹنے کے لئے ایتھوپیائی حکومت کم اجرتوں کو ایک مثبت چیز بنا کر پیش کرتی ہے۔ ملک کی کپڑا ساز صنعت کو ملازمت فراہم کرنے کا جواز پیش کرکے اپنی ذمہ داریوں سے مبرا نہیں ہوسکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ پائیدار نظام اور اخلاقیات کے بارے میں دو بڑی غلط فہمیاں ہیں۔ پہلی یہ کہ تیز فیشن کو الزام جاتا ہے جبکہ دوسری ایتھوپیائی فیشن انڈسٹری پر سوالات اٹھنے چاہیں۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ مقامی طور پر تیارشدہ کپڑے اخلاقی اور ماحول دوست ہوتے ہیں۔ جبکہ حقیقت حال میں دور دور تک اس کا تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت ہوابازی اور جہاز رانی کی صنعت سے مجموعی طور پر زیادہ آلودگی پیدا کرتی ہے اور نتیجتا موسمیاتی تبدیلی میں بھی زیادہ کردار ادا کرتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ کسی بھی پہناوے کی تیاری، سپلائی، ترسیل، فروخت، استعمال اور پھینکے جانے، ہر مرحلے کے ہی اپنے اپنے منفی نتائج ہیں۔ سب سے پہلے تو بات گارمنٹس کی تیاری میں استعمال ہونے والے کپڑے کی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کاٹن اور مصنوعی کپڑے میں کون سا بہتر ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کپاس پانی کی شدید طلب رکھنے والی فصل ہے۔ برطانیہ کے دارالعوام کی ماحولیاتی آڈٹ کمیٹی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پیش کیا کہ ایک شرٹ اور جینز کی پینٹ کی تیاری میں بیس ہزار لیٹر تک پانی کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے اندر پلاسٹک کے خوردبینی دھاگوں کو علیحدہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک بھری ہوئی واشنگ مشین کی ایک دھلائی میں ایسے لاکھون دھاگے خارج ہوسکتے ہیں۔ نقادوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم فیشن کی پائیدار صنعت کو سنجیدگی سے لیں تو پالیسی کا مقصدیہ ہونا چاہیئے کہ ہمیں کم خریدنے پر قائل کیا جائے۔ اس کے لئے بہت سخت اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ جس میں کپڑوں پر ماحولیاتی ٹیکس عائد کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔ جیسے جیسے صارفین کے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ویسے ویسے کچھ ریٹیلر اس چیلنج کو پورا کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہوجاتے ہیں۔ سپین کی زارابرائنڈ نے حال ہی میں عزم کیا ہے کہ وہ بیس سو پچیس تک سو فیصد ماحول دوست کپڑے استعمال کرے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف انڈیکس نہیں بلکہ دیگر کئی ایسی کمپنیاں ہیں جو کہ اپنے صنعتی اور ترسیل کے مراحل کو بہتر بنانا چاہتی ہیں۔ زارا کے پابلوایسلا کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ ان کے مطابق ایک ریٹیلر صرف صارفین کی کی خواہشات کو مدنظر رکھتا ہے اور ان خریداروں کے پاس انتخاب کی آذاد ی ہوتی ہے۔ خریداروں کا کیا ہوگا؟ ایک سال تک بھی فیشن پر پیسے خرچ نہیں کریں گے۔ یہ طرزعمل مقبولیت حاصل کررہا ہے اور بہتر کپڑوں کی خریداری اور پرانے کپڑوں کی مرمت پر اب پہلے سے ذیادہ توجہ دی جارہی ہے عوام پر اثرانداز ہونے والی ایسی ہر چھے شخصیات میں ایک نے تسلیم کیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ کسی کپڑے کی نمائش کردیں تو اسے دوبارہ نہیں پہنتے۔


No comments:

Post a Comment

Thank you for contacting us, we will response ASAP

Pages