صائمہ عمار
بچپن میں بینائی سے محروم ہوجانے کے باوجود کیسے اعلی تعلیم حاصل کی اور پاکستان کے خصوصی افراد کے لئے اپنی زندگی وقف کردی
مجھے بڑی حیرت ہوئی ہے جب لوگ آنکھوں جیسی عظیم نعمت کے ہوتے ہوئے بھی کسی کام کو ناممکن سمجھ لیتے ہیں، ان کو دینا میں موجود وہ عظیم لوگ نظر نہیں آتے جو نابینا ہوتے ہوئے بھی بینا لوگوں کے لئے مثال ہیں۔ آپ ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرے ذرا تجریہ کریں کہ آپ خود کو کہاں دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان میں سب سے بڑی نعمت آنکھیں ہیں۔جن کی مدد سے ہم اللہ کی بنائی ہوئی کائنات اور اپنی دنیا کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ نعمت کتنی عظیم ہے اس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہیں۔
لیکن جب انسان کوشش کرتا ہے تو وہ عظیم ذات انسان کی کسی محرومی کو دیکھ کر نہیں نوازتی وہ تو جذبہ دیکھ کر ہمت دیکھ کر اور عزم اور ارادے کی مضبوطی کو مدنظر رکھ کر نوازتی ہے۔ صائمہ عمار بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں۔ جنہوں نے محرومیوں کے باوجود ایک کامیاب زندگی گزاری۔ وہ مشہور شاعر انور مسعود کی بہو اور شاعر اور ادیب عمار مسعود کی اہلیہ تھیں۔ وہ آنکھوں سے ضرور معذور تھیں مگر اُن کے حوصلے معذور نہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا۔ اس عظیم خاتون نے اعلی تعلیم حاصؒ کی اور اس تعلیم کو صیح معنوں میں استعمال بھی کیا۔ انہوں نے دوسروں پر بوجھ بننے کے بجائے نہ صرف اپنا بوجھ خود اُٹھایا بلکہ اپنے جیسے ہزاروں لوگوں کو مجبوری سے بچانے اور معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کا عزم کرلیا۔ اور اس کو عملی شکل دے کر یہ بات ثابت کردی کہ انسان اگر ہمت کرے تو دینا کا ہر کام ممکن ہے۔ صائمہ عمار ڈھائی سال کی تھیں جب بخار کے باعث آپٹک نرو متاثر ہونے کی وجہ سے ان کی بینائی چلی گئی۔ بعدازاں انہوں نے ابتدائی تعلیم لندن سے حاصل کی۔ برطانیہ کے واسئیر کالج فاربلائنڈ سے اے لیول کرنے کے بعد پاکستان آگئیں اور قائداعظم یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کیا۔ اپنی اعلیٰ قابلیت کو ثابت کرتے ہوئے انہوں نے اوپن میرٹ داخلہ ٹیسٹ میں ہزار امیدواروں میں ٹاپ کیا۔
صائمہ عمار ملک کی پہلی نابیناایم بی اے کرنے والی لڑکی تھیں۔ اور اس عظیم خاون نے اپنی باقی ساری زندگی کو نابینا افراد کے لئے وقف کردیا۔ انہوں نے معذور افراد کے مسئلے پر امریکہ سمیت مختلف ممالک میں منعقدہ انٹرنیشنل کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی۔ صائمہ عمار پہلی پاکستانی بابینا لڑکی تھیں جس نے 14، 12مئی 2008ء میں انٹرنیشنل وزٹر پروگرام بیوروآف ایجوکیشن اینڈ کلچرل افئیرز میں شرکت کی۔ صائمہ عمار آڈیو ورلڈ جیسے عظیم پراجیکٹ کی بانی تھیں۔ یہ پروگرام نابینا افراد کو تعلیم اور تفریح کے لئے کیسٹیں فراہم کرتا ہے۔ اس پراجیکٹ کی وجہ سے نابینا افراد کی زندگیوں میں انقلاب آگیا۔ اور انہیں اپنی مرضی کا علم گھر کی دہلیز پر ملنے لگا۔ صائمہ نے نابنیا افراد کے لئے تربیتی ورکشاپس، سول سوسائٹی اور ٹی وی چینلز پر لیکچرزبھی دئیے۔ فاطمہ جناح جیسی بڑی یونیورسٹی میں آپ ایکسٹرنل ایگزامینر بھی رہیں۔ آپ نے 1988ء میں پاکستان فاؤنڈیشن فائٹنگ بلائنڈنس کی بنیاد رکھی۔ اس نان پرافٹ ادارے کا مقصد نابینا افراد کے لئے طبی تحقیق، مفت علاج اور فلاحی خدمات فراہم کرنا ہے۔ اس ادارے نے اپنی مدد آپ کے تحت 12ہزار سے زائد خاندانوں کا ڈیٹا اکھٹا کیا اس فاؤنڈیشن نے آئر لینڈ، فرانس، امریکہ، سوئیزرلینڈ، کینیڈا، جاپان، ہالینڈ، اٹلی اور دیگر ممالک میں منعقدہ کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی ہے۔ فاؤنڈیشن کے پاس چھ سو ایسے خاندان رجسٹرڈ ہیں جن میں ہرخاندان میں تین افراد نابینا ہیں۔ جبکہ ایک سو سے زائد ایسے خاندان ہیں جن میں پانچ یا ذیادہ افراد نابینا ہیں۔
ان کی بنائی گئی فاؤنڈیشن نے نابینا افراد کے لئیے تعلیمی میدان میں انقلابی کام کیا۔ خصوصی طور پر آڈیو ورلڈ یا بولنے والی کتابوں کی لائبریری تمام نابینا افراد کے لئے بڑی نعمت ثابت ہوئی۔ اس لائبریری میں نابینا افراد کے لئے کتابوں کی جگہ آڈیو کیٹس رکھی گئی ہیں۔ فاؤنڈیشن کتاب پڑھ کر ریکارڈ کرکے دینے والے باقاعدہ معاوضہ ادا کرتی ہے۔ صائمہ عمار جنہوں نے یہ عظیم کارنامہ سرانجام دا، 22دسمبر2011کو نروس ڈس آرڈر کے باعث صرف 41سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ وہ ایک خوشحال گھرانے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ چاہتی تو سکون سے گھر میں رہ کر اپنی زندگی بسر کرتی۔ وہ چاہتی تو خود کو آرام پسندی کی نظر کرکے پرسکون زندگی گزار سکتی تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے مشکلوں کے سفر کا انتخاب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت جلد اس دنیا سے چلے جانے کے باجود وہ داستان رقم کرگئیں۔ صائمہ عمار جیسے عظیم کردار اس دنیا سے چلے بھی جائیں تو ان کا کام ان کی یادیں ہمیشہ کے لئے رہ جاتی ہیں۔ یہ ہمارا فیصلہ ہوتا ہے کہ ہم چند دن کے لئے جینا چاہتے ہیں یا پھر ہمیشہ کے لئے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ یہ اُن ہی کی جدوجہد کا کمال ہے کہ نابینا افراد زندگی کے ہر شعبے میں آگے آرہے ہیں۔ اُن کے انقلابی تعلیمی پروگراموں سے بے شمار لوگ آج بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں وہ اپنے حصے کی شمع روشن کرگئی ہیں۔ اب اس سے ہم نے اپنے اپنے حصے کے چراغ روشن کرنے ہیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو دنیا میں سب کے لئے روشنی ہوسکتی ہے ان کی مختص کردہ ترجیحات آج بھی تنظیم کے لئے مشعل راہ کی حثیت رکھتی ہیں جو انہیں آگے بڑھنے کا راستہ دکھارہی ہیں۔ آپ کے لئے صائمہ عمار کی زندگی ایک رول ماڈل ہوسکتی ہے۔ آپ بھی اپنی فکر چھوڑ کر دنیا کے غمگسار بن سکتے ہیں۔ آپ بھی اپنی ناک اور اپنے خاندان سے آگے کا سوچ سکتے ہیں۔ آپ بھی ایک عام انسان سے خاص انسان بن سکتے ہیں۔ بابا جی کہا کرتے تھے۔ پتُر اپنا پیٹ تو جانور بھی بھر ہی لیتے ہیں انسان تو وہ ہے جسے اپنے درد سے ذیادہ دوسروں کا درد محسوس ہو۔ لہذا! اگر آپ خصوصی فرد ہیں تو اپنی محنت، لگن اور خوداعتمادی سے آپ بھی اُس خوبصورت زندگی کا راز پاسکتے ہیں۔ خدا ہم سب کو اپنے ساتھ دوسروں کے لئے بھی جینے کی توفیق عطاء فرمائے۔
”دوسروں کے لئے زندگی وقف کرنے والے ہمیشہ کی زندگی جیتے ہیں“
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP