محافظ لاہور میجر شفقت بلوچ
06ستمبر1965ء کو بھارتی فوج کے 3000فوجیوں کو میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں 110فوجی جوانوں کے ساتھ 10گھنٹے تک نہ صرف روکے رکھا بلکہ درجنوں ٹینک اور توپیں بھی تباہ کردی گئیں.میجر شفقت بلوچ جنہیں بعد میں محافظ لاہور کا خطاب ملاانہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ 5اور6ستمبرکی پچھلی رات ہی 110جوانوں کی کمپنی لے کر ہڈیارہ ڈرین (کاہنہ والا روہی نالا) کے قریب پہنچے ہی تھے کہ اذان فجر کے ساتھ ہی گولہ باری کی آوازوں نے چونکا دیا، انہوں نے وائرلیس پر پاکستان رینجر سے رابطہ کیاتو دوسری جانب سے صرف یہ الفاظ سننے کو ملے کہ ”انڈین فوج نے حملہ کردیا ہے،اور وہ تیزی سے لاہور کی جانب بڑھ رہی ہے، پھر رابطہ ختم ہوگیا“۔ میجر شفقت نے بتایا کہ میں نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل قریشی کو وائرلیس پر سوتے ہوئے جگایا کہ بھارت نے حملہ کردیا ہے تو وہ میری اس بات پر یقین نہیں کررہے تھے.
کرنل قریشی نے جب آرمی چیف جنرل موسی خان کو بیدار کرکے بھارتی حملے کی خبر سنائی تو وہ بھی حیران رہ گئے جب انہیں یقین دلایا گیا کہ واقعی بھارت نے حملہ کردیا ہے اور بھارتی فوجیں تیزی سے لاہور کی جانب بڑھ رہی ہیں تو جنرل موسی خان نے صدرپاکستان محمد ایوب خان کو اطلاع دی۔ صدر پاکستان ایوب خان نے جنرل موسی خان کو کہا کہ ”میری جانب سے میجر شفقت بلوچ کو پیغام دو کہ وہ بھارتی فوج کو صرف 2گھنٹے روک لے تو سار اپاکستان ان کا احسان مند ہوگا“۔ یہی پیغام جب میجر شفقت بلوچ تک پہنچا تو انہوں نے جواب دیا کہ ”سر بھارتی فوج ہمارے اوپر سے ہی گزر کر ہی لاہور جاسکتی ہے، جب تک پاک فوج کا ایک سپاہی بھی ذندہ ہے بھارتی فوج لاہور کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی“۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ بھارتی فوج کے ایک بریگیڈ (کم وبیش ۰۰۰۳ ہزار فوجیوں)کو میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں صرف پاکستان آرمی کی ایک کمپنی(110جوانوں)نے دس گھنٹے تک نہ صرف روکے رکھا بلکہ بھارتی فوج کے درجنوں ٹینک اور توپیں بھی تباہ کردیں، بھارت کو اس محاذپر دوبارہ حملہ آور ہونے کے لئے ایک نیا بریگیڈ لانچ کرنے میں دس گھنٹے لگ گئے،اتنی دیر میں میجر عزیز بھٹی نے
بی آبی اور میجر حبیب نے سائفن کی جانب سے مورچے سنبھا لئیے اور دست بدست جنگ شروع ہوگئی.
میجر شفقت بلوچ نے بتایا کہ میں نالے کے بند کے اوپر کھڑا تھا جبکہ 200گز کے فاصلے پر بھارتی ٹینک اور توپیں مجھ پر گولہ باری کررہی تھیں لیکن کوئی ایک گولی یا گولہ بھی میرے جسم کو نہیں چھو سکا، جبکہ ہم جتنی بھی فائرنگ کرتے تھے وہ انڈین ٹینکوں اور توپوں کو تباہ اور فوجیوں کو ہلاک کررہی تھی، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی غیبی طاقت نے بھارتی فوج کو اندھا کردیا ہے اسی جنگ میں آسمان پر ایک تلوار بھی نمودار ہوئی تھی جس کی ہتھی پاکستان اورتلوار کی نوک بھارت کی جانب تھی جو کہ فتح مبین کی نشاندہی تھی اسی لئے کہا جاسکتا ہے کہ بظاہر یہ جنگ پاکستان فوج کے افسروں اور جوانوں نے لڑی تھی لیکن پس منظرمیں اللہ پاک کی غیبی مدد دشمن کے خلاف برسرپیکار تھی.
06ستمبر1965ء کو بھارتی فوج کے 3000فوجیوں کو میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں 110فوجی جوانوں کے ساتھ 10گھنٹے تک نہ صرف روکے رکھا بلکہ درجنوں ٹینک اور توپیں بھی تباہ کردی گئیں.میجر شفقت بلوچ جنہیں بعد میں محافظ لاہور کا خطاب ملاانہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ 5اور6ستمبرکی پچھلی رات ہی 110جوانوں کی کمپنی لے کر ہڈیارہ ڈرین (کاہنہ والا روہی نالا) کے قریب پہنچے ہی تھے کہ اذان فجر کے ساتھ ہی گولہ باری کی آوازوں نے چونکا دیا، انہوں نے وائرلیس پر پاکستان رینجر سے رابطہ کیاتو دوسری جانب سے صرف یہ الفاظ سننے کو ملے کہ ”انڈین فوج نے حملہ کردیا ہے،اور وہ تیزی سے لاہور کی جانب بڑھ رہی ہے، پھر رابطہ ختم ہوگیا“۔ میجر شفقت نے بتایا کہ میں نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل قریشی کو وائرلیس پر سوتے ہوئے جگایا کہ بھارت نے حملہ کردیا ہے تو وہ میری اس بات پر یقین نہیں کررہے تھے.
کرنل قریشی نے جب آرمی چیف جنرل موسی خان کو بیدار کرکے بھارتی حملے کی خبر سنائی تو وہ بھی حیران رہ گئے جب انہیں یقین دلایا گیا کہ واقعی بھارت نے حملہ کردیا ہے اور بھارتی فوجیں تیزی سے لاہور کی جانب بڑھ رہی ہیں تو جنرل موسی خان نے صدرپاکستان محمد ایوب خان کو اطلاع دی۔ صدر پاکستان ایوب خان نے جنرل موسی خان کو کہا کہ ”میری جانب سے میجر شفقت بلوچ کو پیغام دو کہ وہ بھارتی فوج کو صرف 2گھنٹے روک لے تو سار اپاکستان ان کا احسان مند ہوگا“۔ یہی پیغام جب میجر شفقت بلوچ تک پہنچا تو انہوں نے جواب دیا کہ ”سر بھارتی فوج ہمارے اوپر سے ہی گزر کر ہی لاہور جاسکتی ہے، جب تک پاک فوج کا ایک سپاہی بھی ذندہ ہے بھارتی فوج لاہور کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی“۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ بھارتی فوج کے ایک بریگیڈ (کم وبیش ۰۰۰۳ ہزار فوجیوں)کو میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں صرف پاکستان آرمی کی ایک کمپنی(110جوانوں)نے دس گھنٹے تک نہ صرف روکے رکھا بلکہ بھارتی فوج کے درجنوں ٹینک اور توپیں بھی تباہ کردیں، بھارت کو اس محاذپر دوبارہ حملہ آور ہونے کے لئے ایک نیا بریگیڈ لانچ کرنے میں دس گھنٹے لگ گئے،اتنی دیر میں میجر عزیز بھٹی نے
بی آبی اور میجر حبیب نے سائفن کی جانب سے مورچے سنبھا لئیے اور دست بدست جنگ شروع ہوگئی.
میجر شفقت بلوچ نے بتایا کہ میں نالے کے بند کے اوپر کھڑا تھا جبکہ 200گز کے فاصلے پر بھارتی ٹینک اور توپیں مجھ پر گولہ باری کررہی تھیں لیکن کوئی ایک گولی یا گولہ بھی میرے جسم کو نہیں چھو سکا، جبکہ ہم جتنی بھی فائرنگ کرتے تھے وہ انڈین ٹینکوں اور توپوں کو تباہ اور فوجیوں کو ہلاک کررہی تھی، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی غیبی طاقت نے بھارتی فوج کو اندھا کردیا ہے اسی جنگ میں آسمان پر ایک تلوار بھی نمودار ہوئی تھی جس کی ہتھی پاکستان اورتلوار کی نوک بھارت کی جانب تھی جو کہ فتح مبین کی نشاندہی تھی اسی لئے کہا جاسکتا ہے کہ بظاہر یہ جنگ پاکستان فوج کے افسروں اور جوانوں نے لڑی تھی لیکن پس منظرمیں اللہ پاک کی غیبی مدد دشمن کے خلاف برسرپیکار تھی.
Defender Lahore Major Shafqat Baloch
On September 6, 1965, 3,000 Indian soldiers, led by Major Shafqat Baloch, along with 110 soldiers, were not only detained for 10 hours, but dozens of tanks and artillery were also destroyed. Major Shafqat Baloch He said that he had reached near Hadiyara Drain (Kahnawala Rohi Nala) with a company of 110 soldiers on the night of September 5 and 6 when he was startled by the sound of shelling along with Fajr call. He contacted Pakistan Ranger on wireless. The only words heard from were: "The Indian army has attacked, and it is rapidly advancing towards Lahore, then the connection is lost." "I woke up my commanding officer, Colonel Qureshi, asleep on the wireless, saying that India had attacked, but he did not believe me," said Major Shafqat.
When Colonel Qureshi woke up Army Chief General Musa Khan and told him about the Indian attack, he too was shocked when he was assured that India had indeed attacked and that Indian troops were advancing towards Lahore. Informed the President of Pakistan Muhammad Ayub Khan. President Ayub Khan told General Musa Khan, "Send a message from me to Major Shafqat Baloch that if he stops the Indian Army for only 2 hours, then the whole of Pakistan will be grateful to him." When the same message reached Major Shafqat Baloch, he replied, "Sir, the Indian Army can only pass over us and reach Lahore. As long as a soldier of the Pakistan Army is alive, the Indian Army cannot look down on Lahore." "
Then the world saw that a brigade of Indian Army (approximately 5,000 soldiers) led by Major Shafqat Baloch was stopped not only by a company of Pakistan Army (110 soldiers) for ten hours but also dozens of tanks and artillery of Indian Army. Destroy, it took ten hours for India to launch a new brigade to attack this front again, in the meantime Major Aziz Bhatti
B. Abi and Major Habib took the front from the siphon and the battle started hand in hand.
Major Shafqat Baloch said that I was standing on the embankment while Indian tanks and artillery were shelling me 200 yards away but not a single bullet or shell touched my body while we were firing as much as we could. She was destroying Indian tanks and artillery and killing soldiers. It was as if an unseen force had blinded the Indian army. In the same battle, a sword appeared in the sky with Pakistan in its hand and India's sword pointing. On the side that was indicative of the victory, it can be said that apparently this war was fought by the officers and men of the Pakistan Army, but in the background, the unseen help of God was fighting against the enemy.
On September 6, 1965, 3,000 Indian soldiers, led by Major Shafqat Baloch, along with 110 soldiers, were not only detained for 10 hours, but dozens of tanks and artillery were also destroyed. Major Shafqat Baloch He said that he had reached near Hadiyara Drain (Kahnawala Rohi Nala) with a company of 110 soldiers on the night of September 5 and 6 when he was startled by the sound of shelling along with Fajr call. He contacted Pakistan Ranger on wireless. The only words heard from were: "The Indian army has attacked, and it is rapidly advancing towards Lahore, then the connection is lost." "I woke up my commanding officer, Colonel Qureshi, asleep on the wireless, saying that India had attacked, but he did not believe me," said Major Shafqat.
When Colonel Qureshi woke up Army Chief General Musa Khan and told him about the Indian attack, he too was shocked when he was assured that India had indeed attacked and that Indian troops were advancing towards Lahore. Informed the President of Pakistan Muhammad Ayub Khan. President Ayub Khan told General Musa Khan, "Send a message from me to Major Shafqat Baloch that if he stops the Indian Army for only 2 hours, then the whole of Pakistan will be grateful to him." When the same message reached Major Shafqat Baloch, he replied, "Sir, the Indian Army can only pass over us and reach Lahore. As long as a soldier of the Pakistan Army is alive, the Indian Army cannot look down on Lahore." "
Then the world saw that a brigade of Indian Army (approximately 5,000 soldiers) led by Major Shafqat Baloch was stopped not only by a company of Pakistan Army (110 soldiers) for ten hours but also dozens of tanks and artillery of Indian Army. Destroy, it took ten hours for India to launch a new brigade to attack this front again, in the meantime Major Aziz Bhatti
B. Abi and Major Habib took the front from the siphon and the battle started hand in hand.
Major Shafqat Baloch said that I was standing on the embankment while Indian tanks and artillery were shelling me 200 yards away but not a single bullet or shell touched my body while we were firing as much as we could. She was destroying Indian tanks and artillery and killing soldiers. It was as if an unseen force had blinded the Indian army. In the same battle, a sword appeared in the sky with Pakistan in its hand and India's sword pointing. On the side that was indicative of the victory, it can be said that apparently this war was fought by the officers and men of the Pakistan Army, but in the background, the unseen help of God was fighting against the enemy.
في 6 سبتمبر 1965 ، تم اعتقال 3000 جندي هندي ، بقيادة الرائد شفقت بلوش ، إلى جانب 110 جنود ، ليس فقط لمدة 10 ساعات ، ولكن تم تدمير عشرات الدبابات والمدفعية ، وقال الرائد شفقت بلوش ، الذي اتصل لاحقًا بمدافع لاهور ، في مقابلة. قال إنه وصل لتوه إلى هديارا درين (كاهناوالا روحي نالا) مع سرية قوامها 110 جنود ليلة 5 و 6 سبتمبر / أيلول عندما صدمه صوت القصف مع نداء الفجر ، واتصل بالحارس الباكستاني عبر اللاسلكي. كانت الكلمات الوحيدة التي سمعناها هي: "الجيش الهندي هاجم وهو يتقدم بسرعة نحو لاهور ثم انقطع الاتصال". وقال الرائد شفقت: "أيقظت ضابط القيادة العقيد قريشي لينام على اللاسلكي الذي هاجمته الهند ، لكنه لم يصدقني".
عندما أيقظ العقيد قريشي قائد الجيش الجنرال موسى خان وأخبره بالهجوم الهندي ، صُدم هو الآخر عندما تأكد أن الهند قد هاجمت بالفعل وأن القوات الهندية كانت تتقدم نحو لاهور. أبلغ رئيس باكستان محمد أيوب خان. وقال الرئيس أيوب خان للجنرال موسى خان "أرسل رسالة مني إلى الرائد شفقت بلوش أنه إذا أوقف الجيش الهندي لمدة ساعتين فقط ، فإن باكستان كلها ستكون ممتنة له". وعندما وصلت الرسالة نفسها إلى الرائد شفقت بالوش ، أجاب: "سيدي ، لا يمكن للجيش الهندي إلا أن يمر فوقنا ويصل إلى لاهور. طالما أن جنديًا من الجيش الباكستاني على قيد الحياة ، فلا يمكن للجيش الهندي أن ينظر إلى لاهور بازدراء". "
ثم رأى العالم أن كتيبة من الجيش الهندي (حوالي 5000 جندي) بقيادة الرائد شفقت بلوش تم إيقافها ليس فقط لمدة عشر ساعات من قبل سرية من الجيش الباكستاني (110 جنود) ولكن أيضًا عشرات الدبابات والمدفعية للجيش الهندي. دمرت ، استغرقت الهند عشر ساعات لإطلاق لواء جديد لمهاجمة هذه الجبهة مرة أخرى ، في هذه الأثناء الرائد عزيز بهاتي.
أخذ ب. أبي والرائد حبيب الجبهة من السيفون وبدأت المعركة يدا بيد.
قال الرائد شفقت بالوش إنني كنت أقف على الجسر بينما كانت الدبابات والمدفعية الهندية تقصفني على بعد 200 ياردة ، لكن لم تلمسني رصاصة واحدة أو قذيفة بينما كنا نطلق النار بقدر ما نستطيع. كانت تدمر الدبابات والمدفعية الهندية وتقتل الجنود وكأن قوة خفية أعمت الجيش الهندي ، وفي نفس المعركة ظهر في السماء سيف وباكستان بيدها وسيف الهند يشير. في الجانب الذي كان مؤشرا على الانتصار ، يمكن القول أنه من الواضح أن هذه الحرب قد خاضها ضباط ورجال الجيش الباكستاني ، ولكن في الخلفية ، كانت بعون الله الغيب يقاتل ضد العدو.
डिफेंडर लाहौर मेजर शफकत बलूच
6 सितंबर, 1965 को, 110 सैनिकों के साथ, मेजर शफकत बलूच के नेतृत्व में 3,000 भारतीय सैनिकों को न केवल 10 घंटे के लिए हिरासत में लिया गया, बल्कि दर्जनों टैंक और तोपखाने भी नष्ट कर दिए गए। मेजर शफकत बलूच को बाद में लाहौर का डिफेंडर कहा गया, एक साक्षात्कार में कहा। उन्होंने कहा कि वह 5 और 6 सितंबर की रात को 110 सैनिकों की एक कंपनी के साथ हादियारा ड्रेन (कहनवाला रोही नाला) पहुंचे थे जब वह फज्र कॉल के साथ गोलाबारी की आवाज से चौंका था। उन्होंने वायरलेस पर पाकिस्तान रेंजर से संपर्क किया। केवल सुना गया शब्द था: "भारतीय सेना ने हमला किया है, और यह लाहौर की ओर तेजी से आगे बढ़ रहा है, फिर कनेक्शन खो गया है।" मेजर शफकत ने कहा, "मेरे कमांडिंग ऑफिसर कर्नल कुरैशी ने उस वायरलेस पर नींद से जगाया, जिस पर भारत ने हमला किया था, लेकिन उसने मुझ पर विश्वास नहीं किया।"
जब कर्नल कुरैशी ने सेना प्रमुख जनरल मूसा खान को जगाया और उन्हें भारतीय हमले के बारे में बताया, तो उन्हें भी बहुत झटका लगा जब उन्हें आश्वासन दिया गया कि भारत ने वास्तव में हमला किया था और भारतीय सैनिक लाहौर की ओर बढ़ रहे थे। पाकिस्तान के राष्ट्रपति मुहम्मद अयूब खान को सूचित किया। राष्ट्रपति अयूब खान ने जनरल मूसा खान से कहा, "मुझे मेजर शफ़क़त बलूच से एक संदेश भेजें कि अगर वह केवल 2 घंटे के लिए भारतीय सेना को रोकते हैं, तो पूरा पाकिस्तान उनका आभारी होगा।" जब यही संदेश मेजर शफकत बलूच के पास पहुंचा, तो उन्होंने जवाब दिया, "सर, भारतीय सेना केवल हमारे ऊपर से गुजर सकती है और लाहौर तक पहुंच सकती है। जब तक पाकिस्तान सेना का एक सैनिक जिंदा है, भारतीय सेना लाहौर में नहीं देख सकती।" "
तब दुनिया ने देखा कि मेजर शफकत बलूच की अगुवाई में भारतीय सेना (लगभग 5,000 सैनिकों) की एक ब्रिगेड को न केवल पाकिस्तान सेना (110 सैनिकों) की एक कंपनी, बल्कि दर्जनों टैंकों और भारतीय सेना के तोपखाने द्वारा रोका गया था। नष्ट करें, इस मोर्चे पर फिर से हमला करने के लिए एक नए ब्रिगेड को लॉन्च करने में भारत को दस घंटे लग गए, इस बीच मेजर अजीज भट्टी
बी। अबी और मेजर हबीब ने साइफन से मोर्चा संभाला और लड़ाई हाथ से शुरू हुई।
मेजर शफ़क़त बलूच ने कहा कि मैं तटबंध पर खड़ा था, जबकि भारतीय टैंक और तोपखाने मुझे 200 गज की दूरी पर मार रहे थे, लेकिन एक भी गोली या गोला मेरे शरीर को नहीं छू रहा था, जबकि हम जितना चाहें फायरिंग कर रहे थे। वह भारतीय टैंकों और तोपखाने को नष्ट कर रहा था और सैनिकों को मार रहा था। यह ऐसा था मानो एक अनदेखी ताकत ने भारतीय सेना को अंधा कर दिया हो। उसी युद्ध में उसके हाथ में पाकिस्तान के साथ एक तलवार दिखाई दी और भारत की तलवार की ओर इशारा किया। उस तरफ जो जीत का संकेत था, यह कहा जा सकता है कि जाहिरा तौर पर यह युद्ध पाकिस्तान सेना के अधिकारियों और पुरुषों द्वारा लड़ा गया था, लेकिन पृष्ठभूमि में, भगवान की अनदेखी मदद दुश्मन के खिलाफ लड़ रही थी।
6 सितंबर, 1965 को, 110 सैनिकों के साथ, मेजर शफकत बलूच के नेतृत्व में 3,000 भारतीय सैनिकों को न केवल 10 घंटे के लिए हिरासत में लिया गया, बल्कि दर्जनों टैंक और तोपखाने भी नष्ट कर दिए गए। मेजर शफकत बलूच को बाद में लाहौर का डिफेंडर कहा गया, एक साक्षात्कार में कहा। उन्होंने कहा कि वह 5 और 6 सितंबर की रात को 110 सैनिकों की एक कंपनी के साथ हादियारा ड्रेन (कहनवाला रोही नाला) पहुंचे थे जब वह फज्र कॉल के साथ गोलाबारी की आवाज से चौंका था। उन्होंने वायरलेस पर पाकिस्तान रेंजर से संपर्क किया। केवल सुना गया शब्द था: "भारतीय सेना ने हमला किया है, और यह लाहौर की ओर तेजी से आगे बढ़ रहा है, फिर कनेक्शन खो गया है।" मेजर शफकत ने कहा, "मेरे कमांडिंग ऑफिसर कर्नल कुरैशी ने उस वायरलेस पर नींद से जगाया, जिस पर भारत ने हमला किया था, लेकिन उसने मुझ पर विश्वास नहीं किया।"
जब कर्नल कुरैशी ने सेना प्रमुख जनरल मूसा खान को जगाया और उन्हें भारतीय हमले के बारे में बताया, तो उन्हें भी बहुत झटका लगा जब उन्हें आश्वासन दिया गया कि भारत ने वास्तव में हमला किया था और भारतीय सैनिक लाहौर की ओर बढ़ रहे थे। पाकिस्तान के राष्ट्रपति मुहम्मद अयूब खान को सूचित किया। राष्ट्रपति अयूब खान ने जनरल मूसा खान से कहा, "मुझे मेजर शफ़क़त बलूच से एक संदेश भेजें कि अगर वह केवल 2 घंटे के लिए भारतीय सेना को रोकते हैं, तो पूरा पाकिस्तान उनका आभारी होगा।" जब यही संदेश मेजर शफकत बलूच के पास पहुंचा, तो उन्होंने जवाब दिया, "सर, भारतीय सेना केवल हमारे ऊपर से गुजर सकती है और लाहौर तक पहुंच सकती है। जब तक पाकिस्तान सेना का एक सैनिक जिंदा है, भारतीय सेना लाहौर में नहीं देख सकती।" "
तब दुनिया ने देखा कि मेजर शफकत बलूच की अगुवाई में भारतीय सेना (लगभग 5,000 सैनिकों) की एक ब्रिगेड को न केवल पाकिस्तान सेना (110 सैनिकों) की एक कंपनी, बल्कि दर्जनों टैंकों और भारतीय सेना के तोपखाने द्वारा रोका गया था। नष्ट करें, इस मोर्चे पर फिर से हमला करने के लिए एक नए ब्रिगेड को लॉन्च करने में भारत को दस घंटे लग गए, इस बीच मेजर अजीज भट्टी
बी। अबी और मेजर हबीब ने साइफन से मोर्चा संभाला और लड़ाई हाथ से शुरू हुई।
मेजर शफ़क़त बलूच ने कहा कि मैं तटबंध पर खड़ा था, जबकि भारतीय टैंक और तोपखाने मुझे 200 गज की दूरी पर मार रहे थे, लेकिन एक भी गोली या गोला मेरे शरीर को नहीं छू रहा था, जबकि हम जितना चाहें फायरिंग कर रहे थे। वह भारतीय टैंकों और तोपखाने को नष्ट कर रहा था और सैनिकों को मार रहा था। यह ऐसा था मानो एक अनदेखी ताकत ने भारतीय सेना को अंधा कर दिया हो। उसी युद्ध में उसके हाथ में पाकिस्तान के साथ एक तलवार दिखाई दी और भारत की तलवार की ओर इशारा किया। उस तरफ जो जीत का संकेत था, यह कहा जा सकता है कि जाहिरा तौर पर यह युद्ध पाकिस्तान सेना के अधिकारियों और पुरुषों द्वारा लड़ा गया था, लेकिन पृष्ठभूमि में, भगवान की अनदेखी मदद दुश्मन के खिलाफ लड़ रही थी।
ഡിഫെൻഡർ ലാഹോർ മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂച്
1965 സെപ്റ്റംബർ 6 ന് 110 സൈനികരെ മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂക്കിന്റെ നേതൃത്വത്തിൽ 3,000 ഇന്ത്യൻ സൈനികരെ 10 മണിക്കൂർ തടങ്കലിൽ വയ്ക്കുക മാത്രമല്ല, ഡസൻ കണക്കിന് ടാങ്കുകളും പീരങ്കികളും നശിപ്പിക്കുകയും ചെയ്തു. പിന്നീട് ലാഹോറിലെ ഡിഫെൻഡർ എന്ന് വിളിക്കപ്പെടുന്ന മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂച് ഒരു അഭിമുഖത്തിൽ പറഞ്ഞു. സെപ്റ്റംബർ 5, 6 തീയതികളിൽ 110 സൈനികരുടെ ഒരു കമ്പനിയുമായി താൻ ഹാദിയാര ഡ്രെയിനിൽ (കഹ്നവാല രോഹി നള) എത്തിയിട്ടുണ്ടെന്ന് അദ്ദേഹം പറഞ്ഞു. ഫജർ കോളിനൊപ്പം ഷെല്ലാക്രമണവും കേട്ട് അമ്പരന്നു. വയർലെസിൽ പാകിസ്ഥാൻ റേഞ്ചറുമായി ബന്ധപ്പെട്ടു. കേട്ട ഒരേയൊരു വാക്കുകൾ ഇവയായിരുന്നു: "ഇന്ത്യൻ സൈന്യം ആക്രമിച്ചു, അത് ലാഹോറിലേക്ക് അതിവേഗം മുന്നേറുകയാണ്, തുടർന്ന് ബന്ധം നഷ്ടപ്പെടും." “ഇന്ത്യ ആക്രമിച്ച വയർലെസിനു മുകളിലൂടെ ഉറങ്ങാൻ ഞാൻ എന്റെ കമാൻഡിംഗ് ഓഫീസർ കേണൽ ഖുറേഷിയെ ഉണർത്തി, പക്ഷേ അദ്ദേഹം എന്നെ വിശ്വസിച്ചില്ല,” മേജർ ഷഫ്കത്ത് പറഞ്ഞു.
കേണൽ ഖുറേഷി കരസേനാ മേധാവി ജനറൽ മൂസ ഖാനെ ഉണർത്തി ഇന്ത്യൻ ആക്രമണത്തെക്കുറിച്ച് പറഞ്ഞപ്പോൾ, ഇന്ത്യ യഥാർത്ഥത്തിൽ ആക്രമണം നടത്തിയെന്നും ഇന്ത്യൻ സൈന്യം ലാഹോറിലേക്ക് മുന്നേറുകയാണെന്നും ഉറപ്പുനൽകിയപ്പോൾ അദ്ദേഹവും ഞെട്ടിപ്പോയി. പാകിസ്ഥാൻ പ്രസിഡന്റ് മുഹമ്മദ് അയ്യൂബ് ഖാനെ അറിയിച്ചു. ഇന്ത്യൻ സൈന്യത്തെ 2 മണിക്കൂർ മാത്രം നിർത്തിയാൽ പാകിസ്ഥാൻ മുഴുവൻ അദ്ദേഹത്തോട് നന്ദിയുള്ളവരായിരിക്കുമെന്ന് പ്രസിഡന്റ് അയ്യൂബ് ഖാൻ ജനറൽ മൂസ ഖാനോട് പറഞ്ഞു. മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂച്ചിന് എന്നിൽ നിന്ന് ഒരു സന്ദേശം അയയ്ക്കുക. ഇതേ സന്ദേശം മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂച്ചിൽ എത്തിയപ്പോൾ അദ്ദേഹം മറുപടി പറഞ്ഞു, "സർ, ഇന്ത്യൻ സൈന്യത്തിന് ഞങ്ങളെ മറികടന്ന് ലാഹോറിലെത്താൻ മാത്രമേ കഴിയൂ. പാകിസ്ഥാൻ സൈന്യത്തിലെ ഒരു സൈനികൻ ജീവിച്ചിരിക്കുന്നിടത്തോളം കാലം ഇന്ത്യൻ സൈന്യത്തിന് ലാഹോറിനെ താഴേക്ക് നോക്കാനാവില്ല." "
മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂക്കിന്റെ നേതൃത്വത്തിലുള്ള ഇന്ത്യൻ സൈന്യത്തിന്റെ (ഏകദേശം 5,000 സൈനികർ) പാകിസ്ഥാൻ സൈന്യത്തിന്റെ ഒരു കമ്പനി (110 സൈനികർ) മാത്രമല്ല, ഡസൻ കണക്കിന് ടാങ്കുകളും ഇന്ത്യൻ സൈന്യത്തിന്റെ പീരങ്കികളും നിർത്തിവച്ചതായി ലോകം കണ്ടു. നശിപ്പിക്കുക, ഈ ഗ്രൗണ്ടിനെ വീണ്ടും ആക്രമിക്കാൻ ഒരു പുതിയ ബ്രിഗേഡ് ആരംഭിക്കാൻ ഇന്ത്യയ്ക്ക് പത്ത് മണിക്കൂറെടുത്തു, അതിനിടയിൽ മേജർ അസീസ് ഭട്ടി
ബി. അബിയും മേജർ ഹബീബും സൈഫോണിൽ നിന്ന് മുന്നിലെത്തി, യുദ്ധം കൈകോർത്തു.
ഇന്ത്യൻ ടാങ്കുകളും പീരങ്കികളും എന്നെ 200 യാർഡ് അകലെ ഷെല്ലാക്രമണം നടത്തുമ്പോൾ ഞാൻ കായലിൽ നിൽക്കുകയായിരുന്നുവെന്ന് മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂച് പറഞ്ഞു, എന്നാൽ ഞങ്ങൾ കഴിയുന്നത്ര വെടിവയ്ക്കുമ്പോൾ ഒരു വെടിയുണ്ടയോ ഷെല്ലോ പോലും എന്റെ ശരീരത്തിൽ സ്പർശിച്ചിട്ടില്ല. അവർ ഇന്ത്യൻ ടാങ്കുകളും പീരങ്കികളും നശിപ്പിക്കുകയും സൈനികരെ കൊല്ലുകയുമായിരുന്നു.അത് കാണാത്ത ഒരു ശക്തി ഇന്ത്യൻ സൈന്യത്തെ അന്ധരാക്കിയതുപോലെയായിരുന്നു.അതേ യുദ്ധത്തിൽ പാക്കിസ്ഥാന്റെ കൈയിൽ ആകാശത്ത് ഒരു വാൾ പ്രത്യക്ഷപ്പെടുകയും ഇന്ത്യയുടെ വാൾ ചൂണ്ടുകയും ചെയ്തു. വിജയത്തിന്റെ സൂചനയായിരുന്ന ഭാഗത്ത്, ഈ യുദ്ധം പാകിസ്ഥാൻ സൈന്യത്തിലെ ഉദ്യോഗസ്ഥരും പുരുഷന്മാരും നടത്തിയതാണെന്ന് പറയാം, എന്നാൽ പശ്ചാത്തലത്തിൽ, ദൈവത്തിന്റെ അദൃശ്യമായ സഹായം ശത്രുവിനെതിരെ പോരാടുകയായിരുന്നു.
1965 സെപ്റ്റംബർ 6 ന് 110 സൈനികരെ മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂക്കിന്റെ നേതൃത്വത്തിൽ 3,000 ഇന്ത്യൻ സൈനികരെ 10 മണിക്കൂർ തടങ്കലിൽ വയ്ക്കുക മാത്രമല്ല, ഡസൻ കണക്കിന് ടാങ്കുകളും പീരങ്കികളും നശിപ്പിക്കുകയും ചെയ്തു. പിന്നീട് ലാഹോറിലെ ഡിഫെൻഡർ എന്ന് വിളിക്കപ്പെടുന്ന മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂച് ഒരു അഭിമുഖത്തിൽ പറഞ്ഞു. സെപ്റ്റംബർ 5, 6 തീയതികളിൽ 110 സൈനികരുടെ ഒരു കമ്പനിയുമായി താൻ ഹാദിയാര ഡ്രെയിനിൽ (കഹ്നവാല രോഹി നള) എത്തിയിട്ടുണ്ടെന്ന് അദ്ദേഹം പറഞ്ഞു. ഫജർ കോളിനൊപ്പം ഷെല്ലാക്രമണവും കേട്ട് അമ്പരന്നു. വയർലെസിൽ പാകിസ്ഥാൻ റേഞ്ചറുമായി ബന്ധപ്പെട്ടു. കേട്ട ഒരേയൊരു വാക്കുകൾ ഇവയായിരുന്നു: "ഇന്ത്യൻ സൈന്യം ആക്രമിച്ചു, അത് ലാഹോറിലേക്ക് അതിവേഗം മുന്നേറുകയാണ്, തുടർന്ന് ബന്ധം നഷ്ടപ്പെടും." “ഇന്ത്യ ആക്രമിച്ച വയർലെസിനു മുകളിലൂടെ ഉറങ്ങാൻ ഞാൻ എന്റെ കമാൻഡിംഗ് ഓഫീസർ കേണൽ ഖുറേഷിയെ ഉണർത്തി, പക്ഷേ അദ്ദേഹം എന്നെ വിശ്വസിച്ചില്ല,” മേജർ ഷഫ്കത്ത് പറഞ്ഞു.
കേണൽ ഖുറേഷി കരസേനാ മേധാവി ജനറൽ മൂസ ഖാനെ ഉണർത്തി ഇന്ത്യൻ ആക്രമണത്തെക്കുറിച്ച് പറഞ്ഞപ്പോൾ, ഇന്ത്യ യഥാർത്ഥത്തിൽ ആക്രമണം നടത്തിയെന്നും ഇന്ത്യൻ സൈന്യം ലാഹോറിലേക്ക് മുന്നേറുകയാണെന്നും ഉറപ്പുനൽകിയപ്പോൾ അദ്ദേഹവും ഞെട്ടിപ്പോയി. പാകിസ്ഥാൻ പ്രസിഡന്റ് മുഹമ്മദ് അയ്യൂബ് ഖാനെ അറിയിച്ചു. ഇന്ത്യൻ സൈന്യത്തെ 2 മണിക്കൂർ മാത്രം നിർത്തിയാൽ പാകിസ്ഥാൻ മുഴുവൻ അദ്ദേഹത്തോട് നന്ദിയുള്ളവരായിരിക്കുമെന്ന് പ്രസിഡന്റ് അയ്യൂബ് ഖാൻ ജനറൽ മൂസ ഖാനോട് പറഞ്ഞു. മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂച്ചിന് എന്നിൽ നിന്ന് ഒരു സന്ദേശം അയയ്ക്കുക. ഇതേ സന്ദേശം മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂച്ചിൽ എത്തിയപ്പോൾ അദ്ദേഹം മറുപടി പറഞ്ഞു, "സർ, ഇന്ത്യൻ സൈന്യത്തിന് ഞങ്ങളെ മറികടന്ന് ലാഹോറിലെത്താൻ മാത്രമേ കഴിയൂ. പാകിസ്ഥാൻ സൈന്യത്തിലെ ഒരു സൈനികൻ ജീവിച്ചിരിക്കുന്നിടത്തോളം കാലം ഇന്ത്യൻ സൈന്യത്തിന് ലാഹോറിനെ താഴേക്ക് നോക്കാനാവില്ല." "
മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂക്കിന്റെ നേതൃത്വത്തിലുള്ള ഇന്ത്യൻ സൈന്യത്തിന്റെ (ഏകദേശം 5,000 സൈനികർ) പാകിസ്ഥാൻ സൈന്യത്തിന്റെ ഒരു കമ്പനി (110 സൈനികർ) മാത്രമല്ല, ഡസൻ കണക്കിന് ടാങ്കുകളും ഇന്ത്യൻ സൈന്യത്തിന്റെ പീരങ്കികളും നിർത്തിവച്ചതായി ലോകം കണ്ടു. നശിപ്പിക്കുക, ഈ ഗ്രൗണ്ടിനെ വീണ്ടും ആക്രമിക്കാൻ ഒരു പുതിയ ബ്രിഗേഡ് ആരംഭിക്കാൻ ഇന്ത്യയ്ക്ക് പത്ത് മണിക്കൂറെടുത്തു, അതിനിടയിൽ മേജർ അസീസ് ഭട്ടി
ബി. അബിയും മേജർ ഹബീബും സൈഫോണിൽ നിന്ന് മുന്നിലെത്തി, യുദ്ധം കൈകോർത്തു.
ഇന്ത്യൻ ടാങ്കുകളും പീരങ്കികളും എന്നെ 200 യാർഡ് അകലെ ഷെല്ലാക്രമണം നടത്തുമ്പോൾ ഞാൻ കായലിൽ നിൽക്കുകയായിരുന്നുവെന്ന് മേജർ ഷഫ്കത്ത് ബലൂച് പറഞ്ഞു, എന്നാൽ ഞങ്ങൾ കഴിയുന്നത്ര വെടിവയ്ക്കുമ്പോൾ ഒരു വെടിയുണ്ടയോ ഷെല്ലോ പോലും എന്റെ ശരീരത്തിൽ സ്പർശിച്ചിട്ടില്ല. അവർ ഇന്ത്യൻ ടാങ്കുകളും പീരങ്കികളും നശിപ്പിക്കുകയും സൈനികരെ കൊല്ലുകയുമായിരുന്നു.അത് കാണാത്ത ഒരു ശക്തി ഇന്ത്യൻ സൈന്യത്തെ അന്ധരാക്കിയതുപോലെയായിരുന്നു.അതേ യുദ്ധത്തിൽ പാക്കിസ്ഥാന്റെ കൈയിൽ ആകാശത്ത് ഒരു വാൾ പ്രത്യക്ഷപ്പെടുകയും ഇന്ത്യയുടെ വാൾ ചൂണ്ടുകയും ചെയ്തു. വിജയത്തിന്റെ സൂചനയായിരുന്ന ഭാഗത്ത്, ഈ യുദ്ധം പാകിസ്ഥാൻ സൈന്യത്തിലെ ഉദ്യോഗസ്ഥരും പുരുഷന്മാരും നടത്തിയതാണെന്ന് പറയാം, എന്നാൽ പശ്ചാത്തലത്തിൽ, ദൈവത്തിന്റെ അദൃശ്യമായ സഹായം ശത്രുവിനെതിരെ പോരാടുകയായിരുന്നു.
مدافع لاهور میجر شفقت بلوڅ
د سپټمبر په، مه ، 65 1965، کې د میجر شفقت بلوڅ په مشرۍ ،000،000 Indian Indian هندي سرتیري د soldiers 110 soldiers سرتیرو په ګډون نه یوازې د for 10 ساعتونو لپاره توقیف شوي وو ، بلکې په لسګونو ټانکونه او توپونه یې هم ویجاړ شوي وو ، وروسته میجر شفقت بلوڅ ، چې وروسته د لاهور مدافع بلل کیږي ، په یوه مرکه کې وویل. هغه وویل چې هغه د سپټمبر په 5 او 6 شپه د 110 عسکرو د یوې کمپنۍ سره د هدیره ډرین (کاهنواله روهی نالا) ته رسیدلی و کله چې هغه د فجر زنګ سره د ګولۍ غږیدو سره حیران شو ، هغه د بېسیم په اړه د پاکستان رینجر سره اړیکه ونیوله. یوازې هغه ټکي اوریدل شوي چې: "د هند اردو برید کړی ، او د لاهور په لور ګړندي پرمختګ کوي ، نو بیا اړیکه ورکه شوې." جګړن شفقت وویل: "ما خپل کمانډویي افسر ډګروال قریشي راویښ کړ چې په هغه بې سیمه کې ویده شوم چې هند پرې برید کړی و ، خو هغه په ما باور نه کوي."
کله چې ډګروال قریشي د اردو مشر جنرال موسی خان راویښ شو او هغه ته یې د هندي برید په اړه وویل ، هغه هم حیران شو کله چې هغه ته ډاډ ورکړل شو چې هند واقعیا برید کړی او هندي سرتیري د لاهور په لور روان دي. د پاکستان ولسمشر محمد ایوب خان ته خبر ورکړ. ولسمشر ایوب خان جنرال موسی خان ته وویل ، "ما څخه میجر شفقت بلوڅ ته پیغام واستوئ چې که هغه یوازې د hours ساعتونو لپاره د هند اردو ودروي ، نو ټول پاکستان به د هغه مننه وکړي." کله چې ورته پیغام جګړن شفقت بلوڅ ته ورسید ، هغه په ځواب کې وویل: "جناب ، د هند اردو یوازې زموږ څخه تېرېدای شي او لاهور ته رسېدای شي. تر هغه چې د پاکستان د اردو یو سرتیری ژوندی وي ، هندي پوځ نشي کولی په لاهور کې ښکته وګوري." "
بیا نړۍ ولیدل چې د میجر شفقت بلوڅ په مشرۍ د هندوستان د اردو یو لوا (شاوخوا soldiers soldiers soldiers. سرتیري) نه یوازې د لسو ساعتونو لپاره د پاکستان د پوځ د یوې کمپنۍ (soldiers 110 soldiers سرتیرو) لخوا ودرول شول ، بلکې په لسګونو ټانکونه او توپونه هم د هندي اردو لښکر و. ویجاړ کړئ ، دا لس ساعته یې په هند باندې د نوي برید پیل کولو لپاره وکړل چې پدې محاذ باندې بیا برید وکړي ، په ورته وخت کې میجر عزیز بهټي
بی ابی او میجر حبیب د سیفون څخه مخ واخیست او جګړه په خپل لاس پیل کړه.
جګړن شفقت بلوڅ وویل چې زه په تړلو کې ولاړ وم پداسې حال کې چې هندي ټانکونه او توپونه ماته y 200 y متره لرې د هاوان ډزې کوي ، خو یوه ګولۍ یا مرمۍ زما پر بدن هم نده راټولې پداسې حال کې چې موږ کولی شو ډزې وکړې. هغه هندي ټانکونه او توپونه ویجاړول او سرتیري یې ووژل ، دا هغه څه و لکه یو نا څرګند ځواک چې هندي پوځ ړوند کړی و. په ورته جګړه کې ، په اسمان کې یوه توره د پاکستان په لاس کې راغله او د هند توره په نښه شوه. هغه اړخ ته چې د بریا ښودونکی و ، نو ویلای شو چې ظاهرا دا جګړه د پاکستان د اردو د افسرانو او سرتیرو لخوا شوې ، خو په پس منظر کې ، د خدای ناڅرګنده مرسته د دښمن په وړاندې جګړه وه.
د سپټمبر په، مه ، 65 1965، کې د میجر شفقت بلوڅ په مشرۍ ،000،000 Indian Indian هندي سرتیري د soldiers 110 soldiers سرتیرو په ګډون نه یوازې د for 10 ساعتونو لپاره توقیف شوي وو ، بلکې په لسګونو ټانکونه او توپونه یې هم ویجاړ شوي وو ، وروسته میجر شفقت بلوڅ ، چې وروسته د لاهور مدافع بلل کیږي ، په یوه مرکه کې وویل. هغه وویل چې هغه د سپټمبر په 5 او 6 شپه د 110 عسکرو د یوې کمپنۍ سره د هدیره ډرین (کاهنواله روهی نالا) ته رسیدلی و کله چې هغه د فجر زنګ سره د ګولۍ غږیدو سره حیران شو ، هغه د بېسیم په اړه د پاکستان رینجر سره اړیکه ونیوله. یوازې هغه ټکي اوریدل شوي چې: "د هند اردو برید کړی ، او د لاهور په لور ګړندي پرمختګ کوي ، نو بیا اړیکه ورکه شوې." جګړن شفقت وویل: "ما خپل کمانډویي افسر ډګروال قریشي راویښ کړ چې په هغه بې سیمه کې ویده شوم چې هند پرې برید کړی و ، خو هغه په ما باور نه کوي."
کله چې ډګروال قریشي د اردو مشر جنرال موسی خان راویښ شو او هغه ته یې د هندي برید په اړه وویل ، هغه هم حیران شو کله چې هغه ته ډاډ ورکړل شو چې هند واقعیا برید کړی او هندي سرتیري د لاهور په لور روان دي. د پاکستان ولسمشر محمد ایوب خان ته خبر ورکړ. ولسمشر ایوب خان جنرال موسی خان ته وویل ، "ما څخه میجر شفقت بلوڅ ته پیغام واستوئ چې که هغه یوازې د hours ساعتونو لپاره د هند اردو ودروي ، نو ټول پاکستان به د هغه مننه وکړي." کله چې ورته پیغام جګړن شفقت بلوڅ ته ورسید ، هغه په ځواب کې وویل: "جناب ، د هند اردو یوازې زموږ څخه تېرېدای شي او لاهور ته رسېدای شي. تر هغه چې د پاکستان د اردو یو سرتیری ژوندی وي ، هندي پوځ نشي کولی په لاهور کې ښکته وګوري." "
بیا نړۍ ولیدل چې د میجر شفقت بلوڅ په مشرۍ د هندوستان د اردو یو لوا (شاوخوا soldiers soldiers soldiers. سرتیري) نه یوازې د لسو ساعتونو لپاره د پاکستان د پوځ د یوې کمپنۍ (soldiers 110 soldiers سرتیرو) لخوا ودرول شول ، بلکې په لسګونو ټانکونه او توپونه هم د هندي اردو لښکر و. ویجاړ کړئ ، دا لس ساعته یې په هند باندې د نوي برید پیل کولو لپاره وکړل چې پدې محاذ باندې بیا برید وکړي ، په ورته وخت کې میجر عزیز بهټي
بی ابی او میجر حبیب د سیفون څخه مخ واخیست او جګړه په خپل لاس پیل کړه.
جګړن شفقت بلوڅ وویل چې زه په تړلو کې ولاړ وم پداسې حال کې چې هندي ټانکونه او توپونه ماته y 200 y متره لرې د هاوان ډزې کوي ، خو یوه ګولۍ یا مرمۍ زما پر بدن هم نده راټولې پداسې حال کې چې موږ کولی شو ډزې وکړې. هغه هندي ټانکونه او توپونه ویجاړول او سرتیري یې ووژل ، دا هغه څه و لکه یو نا څرګند ځواک چې هندي پوځ ړوند کړی و. په ورته جګړه کې ، په اسمان کې یوه توره د پاکستان په لاس کې راغله او د هند توره په نښه شوه. هغه اړخ ته چې د بریا ښودونکی و ، نو ویلای شو چې ظاهرا دا جګړه د پاکستان د اردو د افسرانو او سرتیرو لخوا شوې ، خو په پس منظر کې ، د خدای ناڅرګنده مرسته د دښمن په وړاندې جګړه وه.
No comments:
Post a Comment
Thank you for contacting us, we will response ASAP